بہترین خطیب اور اچھا مقرر

0

 

بہترین خطیب اور اچھا مقرر 

اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ’’بیان‘‘ کرنا،تقریر کرنا … اور خطابت کرنا ایک بڑی سعادت ہے… ’’بیان‘‘ کرنا اصل میں ’’علماء‘‘ کا کام ہے … اس لئے طالب علمی کے زمانہ سے ہی ’’علم بیان‘‘ یعنی ’’علم خطابت‘‘ سیکھ لینا چاہئے… آپ اگر دین کی خدمت کے لئے ’’تقریر ‘‘ اور خطابت سیکھنا چاہتے ہیں تو پہلی بات یہ یاد رکھیں کہ دو چیزیں ’’خطابت‘‘ کے لئے ’’زہر قاتل‘‘ ہیں:

(۱) نقالی

(۲) لکھی ہوئی تقریر رٹنا

کیا آپ نے کسی ’’نقّال‘‘ کو اچھا مقرر یا خطیب بنتے دیکھا ہے؟… ہم نے خود کئی طلبہ کو دیکھا جو نامور خطباء اور قراء کی ہو بہو نقل اتار لیتے تھے… مگر آگے چل کر اس میدان میں کوئی قابل ذکر خدمت سر انجام نہ دے سکے… نقل ہر حال میں نقل ہی رہتی ہے اور نقال ہمیشہ ’’نقلی‘‘ ہی رہتا ہے ’’ اصلی ‘‘ نہیں بن سکتا… آپ نے بیان کرنا ہے تو اپنے انداز سے کریں، تقریر کرنی ہے تو اپنے انداز سے کریں… حسن اتفاق سے اگر آپ کا انداز اور لہجہ کسی کے ساتھ مل گیا تو یہ اچھی بات ہے… مگر تکلفاً اور زور لگا کر اس کی کوشش نہ کریں… اللہ پاک نے ہر کسی کو ایک انداز دیا ہے… اور ہر کسی کو اس بارے میں الگ الگ نعمتوں سے نوازہ ہے… آپ اللہ تعالیٰ کی عطاء فرمودہ نعمتوں کو استعمال کریں… اور اس کام کے تکلف میں نہ پڑیں… جس کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہے اور نہ آخرت میں… یاد رکھیں! اگر آپ نے اخلاص اور فکر کے ساتھ خطابت کے میدان میں قدم رکھا تو بہت ممکن ہے کہ … امت کو آپ کی آواز میں ایک نیا لہجہ اور ایک نیا انداز نصیب ہو…بیان میں جادو جیسی تاثیر ہوتی ہے… اور بعض آوازوں میں وہ قدرتی حسن ہوتا ہے جو ’’سماعتوں‘‘ کے ساتھ’’ قلب‘‘ کو بھی کھینچ لیتا ہے… ایسی آوازیں بعض اوقات سوئی ہوئی قوم کو جگا دیتی ہیں… اور نیم مردہ جذبات کو زندہ کر دیتی ہیں…اس لئے ’’نقالی‘‘ اور ’’تکلف‘‘ سے بچیں… اپنے فطری لہجے اور آواز میں بیان کریں… اگر آپ کا لہجہ منفرد ہے تب بھی ٹھیک ہے… اور اگر کسی کے ساتھ مشابہ ہے تو تب بھی ٹھیک ہے… آپ نہ زبر دستی کسی کا لہجہ اختیار کریں… اور نہ زبردستی کسی کے لہجے سے منفرد ہونے کی کوشش کریں… خلاصہ یہ ہے کہ لہجے کی فکر دل سے نکال دیں… آپ کے لئے ان شاء اللہ ’’حسنِ خطابت‘‘ کا ایک دروازہ کھل جائے گا…



 دوسرا یہ کہ لکھی ہوئی تقریر زبانی یاد نہ کریں… اگر آپ نے اس کی عادت ڈال لی تو آپ کنویں اور چشمے سے محروم ہو کر ’’واٹر کولر‘‘ تک محدود ہو جائیں گے… جس نے بھی لکھی ہوئی تقریر زبانی یاد کرنے کی عادت ڈالی وہ ہمیشہ خطابت کی وسعت سے محروم رہا… آپ ابھی سے ’’آزاد تقریر‘‘ کی عادت اختیار کریں… قرآنی آیات، احادیث مبارکہ، اشعار اور اسلاف کے مقولے تو ضرور زبانی یاد کریں… اور بہت مضبوط یاد کریں… مگر باقی تقریر ’’طبع زاد‘‘ کریں… تقریر تیار کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ ایک موضوع منتخب کر لیا جائے… پھر اس موضوع کے متعلق خوب اچھی طرح مطالعہ کیا جائے… اس مطالعہ کے دوران آیات، احادیث، مقولے اور اشعار زبانی یاد کر لئے جائیں… اور باقی حاصل مطالعہ کو اپنے دل و دماغ میں بٹھا لیا جائے… اور پھر اپنے الفاظ میں اسے بیان کیا جائے… اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو دین بیان کرنے کا سلیقہ سکھائے۔

[ماخوذ: المرابطون]

No comments:

Post a Comment

براہِ کرم! غلط یا حوصلہ شکن کمنٹ نہ کریں… آپ کا کمنٹ آپ کی ذات اور اخلاق کی پہچان ہے… اس لیے جلا بھنا یا ادب و آداب سے گرا ہوا کمنٹ آپ کے شایان شان ہرگز نہیں۔ شکریہ

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge