Showing posts with label اسلام کیا ہے؟ بنیادی تعارف. Show all posts
Showing posts with label اسلام کیا ہے؟ بنیادی تعارف. Show all posts

اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی

0



 اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی

میں تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یو پی) کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ میر ا پرانا نام شالنی دیوی تھا۔ میرے والد کا نام چودھری بلی سنگھ تھا۔ میری شادی ہریانہ میں پانی پت ضلع کے ایک قصبے میں کرپال سنگھ سے ہوئی۔ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ چودہ سال رہی۔ اب سے آٹھ سال پہلے میرے اللہ تعالی ٰنے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا۔ اللہ تعالی ٰکے شکر سے میرے پانچ بچے ہیں جو میرے ساتھ مسلمان ہیں۔

مجھے بچپن ہی سے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی۔ میں پیڑ، پودوں، پھولوں، چاند، ستاروں کو دیکھتی تو سوچتی کہ ایسی خوب صورت اور حسین چیزوں کو بنانے والا خود کتنا حسین ہو گا… میرے سسرال کے گاؤں میں  بہت سے مسلمان کپڑے وغیرہ کی تجارت کے لیے آتے تھے۔ وہ مجھے ایک مالک کی پوجا اور اللہ تعالی ٰکے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں بتاتے… میرے ساتھ میرے بچے بھی بڑی دل چسپی سے ان کی باتوں کو سنتے… ان کے جانے کے بعد میرے بچے مجھ سے کہتے کہ ماں ہم سب مسلمان ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا… کچھ دنوں بعد میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا اور قریب کے علاقے کے دو مسلمانوں کے ساتھ جا کر اپنے بچوں سمیت مسلمان ہو گئی۔

اسلام قبول کرتے ہی میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے قیامت برپا کر دی… میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے حد ستایا، ہم سب کو جان سے مارنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر موت زندگی کا مالک ہماری حفاظت کرتا رہا… میرے اللہ پر مجھ کو بھروسا رہا اور ہر موڑ پر میں مصلے پر جا کر فریاد کرتی رہی اور اللہ تعالی ٰنے میری ہر موڑ پر مدد کی۔

میں کس منہ سے اپنے مالک کا شکر ادا کروں، میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے جو بڑے زمیندار بھی ہیں مجھے منانے کی ہر ممکن کوشش کی جب میں نے فیصلہ سنا دیا کہ میں مر تو سکتی ہوں مگر اسلام سے نہیں پھر سکتی تو پھر انہوں نے میرے ساتھ بڑ ی سختی کی، مجھے درخت سے لٹکا دیا، درجنوں لوگ مجھے لاٹھی، ڈنڈوں سے پیٹنے لگے مگر وہ لاٹھیاں نہ جانے کہاں لگ رہی تھیں۔ میں اللہ تعالی ٰسے فریا د کرتی رہی، مجھے ایسا لگا کہ مجھے نیند آ گئی ہے یا میں بے ہوش ہو گئی ہوں، بعد میں مجھے ہوش آیا تو پولیس وہاں موجود تھی اور وہ لوگ بھاگ گئے تھے، مجھے لوگوں نے بتایا کہ اس پٹائی میں خود میرے چچا اور جیٹھ کے ہاتھ ٹوٹ گئے، وہ میرے بچوں کو مجھ سے چھین کر لے گئے، میرے بڑے بیٹے جس کا نام میں نے عثمان رکھا ہے ، اس کو گھر لے جا کر بہت مارا۔ وہ دو دن بعد کسی طرح جان بچا کر وہاں سے بھاگ گیا،اور  اپنے ایک مسلما ن دوست کے ہاں پنا ہ لی مگر میرے سسرال نے اسے وہاں بھی ڈھونڈ لیا۔ اس کو مارنے کے لیے وہ بہت سے بدمعاشوں کو چھروں اور چاقوؤں کے ساتھ لے آئے، تیرہ سال کا بچہ اور آٹھ دس لوگ چھریوں سے اسے مارنے لگے، میرے بچے نے چھری چھیننے کی کوشش کی، اسی کوشش میں نہ جانے کسطرح چھری خود مارنے والوں میں سے ایک کے پیٹ میں گھس گئی اور وہ فوراً مر گیا، اتنے میں ایک بس آ گئی، بس والے نے بس روک دی، سواریاں اتریں تو وہ سب لوگ بھاگ گئے، لوگوں نے دیکھا کہ وہاں ایک لڑکا تھا جس کے سارے جسم پر زخم تھے اور ایک شخص مرا ہوا پڑا تھا، پولیس آئی اور میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا، جیل میں اس کی پٹائی ہوتی رہی، اس نے صاف بیان دیا کہ چھری چھینتے ہوئے میرے ہاتھ سے اس کے پیٹ میں گھس گئی، لڑکے کو بڑی جیل بھیج دیا گیا، میں رات رات بھر مصلے پر پڑی رہتی، میں نے سہارے کے لیے ایک مسلمان سے نکاح بھی کر لیا، عورتیں مجھے ڈراتیں کہ تیرے بچے اب تجھے ملنے والے نہیں اور تیرے بچے کی ضمانت کوئی نہیں کرائے گا۔

میرا بیٹا عثمان جیل میں نماز پڑھتا اور دعاء کرتا، ایک دن اس نے خواب دیکھا کہ ایک پردہ آسمان سے آیا اور لوگ کہہ  رہے ہیں کہ بی بی فاطمہ آسمان سے عثمان کی ضمانت کرانے آئی ہیں، ایک ہفتے بعد ایک دولت مند عورت نے عثمان کی ضمانت کرائی، ضمانت ہو گئی تو میں نے اسے دین سیکھنے کے لیے تبلیغی جماعت میں بھیج دیا، میں اپنے چار بچوں کی وجہ سے رویا کرتی اور میرے بچے بھی بہت تڑپتے، میری بچی چھپ کر نماز پڑھتی، اس کو نماز پڑھتا دیکھ کر میرے سسرال والوں نے اس پر مٹی کا تیل چھڑ ک دیا اور آگ جلانا چاہی مگر میرے اللہ نے اسے بچا لیا، انہوں نے چار بار دیا سلائی جلائی مگر ایک بال بھی نہیں جلا، پھر انہوں نے مشورہ کر کے کھیر پکائی اورکھیر میں زہر ملا دیا، وہ کھیر میری دونوں بچیوں کو کھلا دی مگر انہیں کچھ بھی نہ ہوا، میری جٹھانی کہنے لگی کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ تو زہر ہی نہ تھا، اس نے کھیر چکھی اور فورا ً مر گئی۔

میرا بیٹا عثمان جماعت سے آیا، میں اور وہ پانی پت کے پاس ایک جگہ جا رہے تھے کہ ہمارے سسرال والوں نے ہمیں گھیر لیا۔ انہوں نے گولیاں چلائیں مگر ایک فائر بھی ہمیں نہ لگا ، گولیاں ہمارے دائیں بائیں سے گزر جاتی تھیں آخر تیئسواں فائر انہیں کے ایک آدمی کے لگ گیا اور وہ مر گیا، اس پر وہ بھاگ گئے۔ میں اپنے اللہ سے بچوں کو مانگا کرتی، میرے اللہ مجھے میرے بچے مل جائیں، ایک روز ایک عالم مسجد میں آئے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا قصہ سنایا کہ اللہ تعالی ٰنے فرعون کے گھر میں ان کو ان کی ماں سے کیسے ملایا۔ میں گھر گئی اور سجدے میں گر گئی میرے اللہ جب توموسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں کی گود میں پہنچا سکتا ہے تو میرے بچوں کو کیوں نہیں ملا سکتا۔ میں تجھ پر ایمان لائی ہوں میں فریاد کرنے کس سے جاؤں، میں تیرے علاوہ کسی سے فریاد نہ کروں گی، ساری رات سجدے میں پڑی رہی، اسی عالم میں سو گئی۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے اللہ کی بندی خوش ہو جا تیرے بچے تیرے ساتھ ہی رہیں گے۔ صبح میرا بیٹا عثمان بس اڈے پر گیا، اس نے دیکھا کہ تینوں بہنیں چھوٹے بھائی کے ساتھ بس سے اتریں، وہ موقع پا کر بھاگ آئے تھے اور اندازے سے اس شہر آ رہے تھے۔ عثمان چاروں کو لے کر خوشی خوشی گھر آیا، میں پھر ساری رات شکرانے میں سجدے میں پڑی رہی، اس کے بعد پانچ چھ بار ایسا ہوا کہ میرے سسرال والے مجھے اور میرے بچوں کو تلاش کرتے کرتے آئے۔ ہم ان کو دیکھ لیتے مگر ایسا لگتا تھا کہ وہ اندھے ہو گئے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں دیکھ پاتے تھے۔ مجھے ہر موڑ پر میرے مالک نے سہارا دیا میں اس کا کس طرح شکر ادا کروں۔

عثمان نے قرآن مجید پڑھ لیا۔ ہر سال تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی جاتا ہے۔ میں دعاء کر کے اسے بھیج دیتی ہوں کہ حفاظت کرنے والا میرا مالک ہے۔

بڑی دو بیٹیوں کی شادی کر دی ہے دونوں داماد بہت دین دار اور نیک ہیں۔ میری بیٹیاں بھی بہت پکی اور سچی مسلمان ہیں، ان کی شادی کے وقت میرا بیٹا جیل میں تھا میرے اللہ نے اس کی ضمانت کا انتظام کر دیا اور اس نے خود اپنی بہنوں کو خوشی خوشی رخصت کیا۔ اب وہ اللہ کے فضل سے بری ہو گیا ہے، چھوٹی بچی اور بچہ مدرسے میں پڑھ رہے ہیں۔

میں نے ایمان لانے کے بعد قدم قدم پر اللہ کی مدد دیکھی مجھے نماز میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں نے چھ سال سے تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین نہیں چھوڑی، میں نے کیا نہیں چھوڑی، میرے مالک نے چھوڑنے نہیں دی، جب بھی کوئی ضرورت ہوتی ہے مصلے پر جاتی ہوں اور اپنے مالک سے فریاد کرتی ہوں مشکل حل ہو جاتی ہے۔

ہمارے مسلمان بھائی بہن جن کو باپ دادوں سے اسلام مل گیا ہے انہیں اس کی قدر نہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ بھی اللہ پر کامل یقین کریں اور پھر اس کی مدد دیکھیں۔

اب میرا ارادہ قرآن مجید حفظ کرنے کا ہے۔ اور اپنی دونوں بچیوں کو بھی دین کا سپاہی اور داعی بنانا ہے۔ چھوٹے بچے کو چاہتی ہوں کہ وہ بھی لاکھوں لوگوں کو مسلمان بنائے۔ مجھے امید ہے میرے اللہ میری تمنا ضرور پوری کر ے گا اس نے آج تک میری کوئی درخواست رد نہیں کی۔

(بشکریہ ماہنامہ 'اللہ کی پکار' نئی دہلی ، مئی ٢٠٠٨ ص ٤٢ تا ٤٥)

 

سب سے پہلا جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا کیا گیا؟

0

 




سب سے پہلا جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا کیا گیا؟

دینِ اسلام سے پہلے یہودیوں نے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا ۔ ہفتے کے دن اُن کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی اور عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممتاز کرنے کے لیے اپنا مذہبی دن اتوار کا  قرار دیا۔ اگرچہ اس کا  حکم نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دیا تھا، نہ انجیل میں کہیں اس کا تذکرہ ہے۔لیکن عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام اتوار کے دن قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے۔ اسی وجہ سے بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا۔اس کے بعد ۳۲۱ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعے سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممتاز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعے کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا۔

اسلام کا پہلا جمعہ کب اورکہاں پڑھا گیا؟

ہجرت سے پہلے سن 12نبوی میں یعنی ہجرت سے  ایک سال قبل جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا توانصارِمدینہ نے دیکھا کہ یہودی ہفتہ اور عیسائی اتوار کے دن عبادت کرتے ہیں تو انہوں نے باہمی مشورے سے جمعہ کا دن عبادت کے لیے طے کر لیا اور پہلا جمعہ حضرت اَسعد بن زُرَارَہ رضی اللہ عنہ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں پڑھا جس میں 40آدمی شریک ہوئے۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوں دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے دو اہم فتوے:

سوال

جمعہ کس سن ہجری اور کس تاریخ کو پہلی بار ادا کیا گیا اور امامت کس نے کروائی؟

جواب

سن 12نبوی  میں یعنی ہجرت سے  ایک سال قبل مدینہ منورہ میں صحابی رسول حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے جمعہ قائم فرمایااور حاضرین کو نماز پڑھائی۔اس کے چند روز بعد ہی باقاعدہ طور پر جمعہ قائم کرنے کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں تبلیغ دین کے لیے مامورحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کو والا نامہ بھیجا، چنانچہ انہوں نے مدینہ منورہ میں جمعے کے قیام کا اہتمام رکھا، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفس نفیس ہجرت فرماکر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

اور زمانہ جاہلیت میں سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجد کعب بن لوی نے جمعہ قائم کیاتھا۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سیرۃ المصطفیٰ ،جلد اول، ص:324،325،ط:کتب خانہ مظہری۔فقط واللہ اعلم

[فتوی نمبر : 143902200067،دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن]

جمعہ کی فرضیت اور آپ ﷺ کا پہلا جمعہ

سوال

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سب سے پہلے جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا فرمایا؟

جواب

نمازِ جمعہ مکہ معظمہ میں فرض ہوچکی تھی، لیکن اس کی سب سے پہلے ادائیگی مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے فرمائی،اس پہلے جمعہ میں 40حضرات شریک تھے، پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا جمعہ  "قبا" سے روانہ ہوکر محلہ بنو سالم بن عوف میں ادا فرمایا۔ جہاں بعد میں ایک مسجد بنادی گئی، جو "مسجدِ جمعہ" کے نام سے موسوم ہوئی۔ 

نوٹ: چوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مبلغِ اسلام بن کر آئے تھے اور انہی کی تبلیغ سے مدینہ منورہ میں اسلام پھیلا، اس لیے آپ ﷺ نے جمعے کے قیام کا خط حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نام جاری فرمایا، بنابریں مدینہ منورہ میں پہلے جمعے کے قیام کی نسبت حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف بھی کی جاتی ہے۔

البناية شرح الهداية (3/ 53):"وقال أهل السير والتواريخ: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نزل بقباء على بني عمرو بن عوف وذلك يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلةً خلت من شهر ربيع الأول حين اشتد الضحى، فأقام عليه السلام بقباء يوم الاثنين ويوم الثلاثاء ويوم الأربعاء ويوم الخميس، وأسس مسجدهم ثم خرج يوم الجمعة عامداً المدينة فأدركته صلاة الجمعة في بني سالم بن عوف في بطن واد لهم قد اتخذ القوم في ذلك الموضع مسجداً، وكانت هذه الجمعة أول جمعة جمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم في الإسلام، فخطب في هذه الجمعة وهي أول خطبة خطبها بالمدينة، فما قبلها وبعدها أول جمعة جمعت في الإسلام بقرية يقال لها: "جواثا" من قرى البحرين".

اعلاء السنن (8/33):"تتمة أولی: احتج بعض أکابرنا للمسألة بأن فرض الجمعة کان بمکة، ولکن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم لم یتمکن من إقامته هناک؛ وأقامها بالمدینة حین هاجر إلیها، ولم یقمها بقباء مع إقامته بها أربعة عشر یوماً، وهذا دلیل لما ذهبنا إلیه من عدم صحة الجمعة بالقری. أما أن فرض الجمعة کان بمکة، فبدلیل ما أخرجه الدارقطني من طریق المغیرة بن عبد الرحمٰن عن مالک عن الزهري عن عبید اللّٰه عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: أذن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم الجمعة قبل أن یهاجر ولم یستطع أن یجمع بمکة، فکتب إلی مصعب بن عمیر: أما بعد! فانظر الیوم الذي تجهر فیه الیهود بالزبور، فأجمعوا نساء کم وأبناء کم فإذا مال النهار عن شطره عن الزوال من یوم الجمعة فتقربوا إلی اللّٰه برکعتین قال: فهو أول من جمع حتی قدم النبي صلی اللّٰه علیه وسلم  المدینة فجمع عند الزوال من الظهر وأظهر ذلک، ذکره الحافظ في ’’التلخیص الحبیر‘‘ ۱:۱۳۳، وسکت عنه".  (إعلاء السنن ۸؍۳۳-۳۴ ، ادارۃ القرآن) فقط واللہ اعلم

 [فتوی نمبر:  1440042014666،دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن]



 

موت کیا ہے؟موت کی کہانی انسان کی زبانی

0

 



موت کیا ہے؟موت کی کہانی انسان کی زبانی

 فکر آخرت سرکار دو عالم ﷺ :

قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیأتی علی امتی زمان یحبون الخمس وینسون الخمس یحبون الدنیا وینسون الاخرة ویحبون الحیوة وینسون الموت ویحبون القصور وینسون القبور ویحبون المال وینسون الحساب ویحبون الخلق وینسون الخالق۔

ترجمہ: فرمایا۔ میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ پانچ چیزوں کو پسند کریں گے۔ اور پانچ چیزوں کو بھول جائیں گے۔

۱۔         دنیا کو پسند کریں گے۔ آخرت کو بھول جائیں گے۔

۲۔        زندگی کو پسند کریں گے۔ موت کو بھول جائیں گے۔

۳۔       محلات و مکان پسند کریں گے۔ قبر کو بھول جائیں گے۔

۴۔       مال و دنیا پسند کریں گے۔ حساب و  کتاب بھول جائیں گے۔

۵۔       مخلوق کو پسند کریں گے۔ خالق کو بھول جائیں گے۔

حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں :

ایک مرتبہ حضورﷺ مسجد میں تشریف فرما ہوئے۔ دیکھا کہ بعض لوگوں کے ہنسی کی وجہ سے دانت کھل رہے ہیں ۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لذتوں کو توڑنے والی موت کو کثرت سے یاد کرتے ۔ تو وہ ان چیزوں میں مشغول ہونے سے روک دیتی۔ جس سے ہنسی آئی۔

ہر شخص کی قبر روزانہ اعلان کرتی ہے ۔ کہ میں بالکل تنہائی کا گھر ہوں ۔میں سب سے علیحدہ رہنے کا گھر ہوں ۔ میں کیڑوں کا گھر ہوں ۔ جب نیک دفن ہوتا ہے تو قبر اس سے کہتی ہے کہ تیرا آنا مبارک ہو۔ تیرے آنے سے بڑی خوشی ہوئی ۔ جتنے لوگ میری پشت پر چلتے تھے۔ ان میں تو مجھے بہت پسند تھا۔ آج تو میرے پیٹ میں آیا ہے تو میں تجھے اپنا بہترین طرز عمل دکھاؤں گی۔ اس کے بعد اس کی قبر اتنی وسیع ہو جاتی ہے ۔ کہ جہاں تک مردہ کی نظر جائے وہاں تک کھل جاتی ہے ۔ ایک کھڑکی جنت میں سے کھل جاتی ہے ۔ جس سے وہاں کی خوشبوئیں اور ہوائیں وغیرہ آتی رہتی ہیں ۔ جب کوئی بدکار، ریاکار کافر دفن ہوتا ہے ۔ تو زمین اس سے کہتی ہے کہ تیرا آنا بڑا نا مبارک ہے۔ تیرے آنے سے جی بہت برا ہوا۔ جتنے لوگ میری پشت پر چلتے تھے۔ ان میں تو مجھے بہت برا لگتا تھا۔ آج میں تجھے اپنا بدترین طرز عمل دکھاؤں گی۔ یہ کہہ کر وہ اس کو ایسے بھینچتی ہے کہ اس کی ہڈیاں پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں ۔ حضور اقدسﷺ نے اپنی ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر فرمایا۔ کہ اس طرح ایک جانب کی پسلیاں دوسری جانب میں گھس جاتی ہیں ۔ اور ستر اژدھے اس کو ڈسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ وہ ایسے زہریلے ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین کے اوپر پھونک مارے تو قیامت تک زمین پر گھاس نہ اگے گی۔ (اعاذنا اللہ فیھا من سائر العذاب)  اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا ۔ قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں ایک گڑھا ہے۔

حضرت ابن عمر فرماتے ہیں:

ایک شخص نے حضورﷺ سے دریافت کیا۔ کہ یا رسول اللہ! سب سے زیادہ محتاط اور سب سے زیادہ سمجھدار کون ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا۔ جو شخص موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔موت کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ یہی لوگ دنیا کی شرافت اور آخرت کا اعزاز و اکرام حاصل کرنے والے ہیں ۔

قول صدیق اکبر:

کل امرء مصبح فی اھلہ والموت ادنی من شراک نعلہ (بخاری)

ترجمہ: " ہر فرد کو اپنے اہل میں صبح اچھی گزرنے کی دعاء دی جاتی ہے۔ حالانکہ موت جوتی کے تسمہ سے زیادہ قریب ہوتی ہے"۔

قول فاروق اعظم:

کفی بالموت واعظا یاعمر۔

ترجمہ: ''عمر! واعظ کے طور پر موت ہی کافی ہے''۔

قول ذوالنورین:

ان القبر اول منزل منازل الاخرة۔

ترجمہ: ''قبر آخرت کی پہلی منزل ہے''۔

قول علی المرتضیٰ:

موت سے بڑھ کر سچی اور امید سے بڑھ کر جھوٹی کوئی چیز نہیں ہے۔ موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔ جب نماز شروع فرماتے ۔ لرزہ بر اندام ہو جاتے۔فرماتے: ڈرتا ہوں ۔ قبول ہو گی یا نہیں ۔

قول ابو بکر:

الظلمات خمس والسرج لھا خمس حب الدنیا ظلمة والسراج لہ التقویٰ والذنب ظلمة والسراج لہ التوبة والقبر ظلمة والسراج لھا لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ والا خرۃ ظلمة و السراج لھا العمل الصالح والصراط ظلمة والسراج لہ الیقین۔

ترجمہ: تاریکیاں اور اندھیریاں پانچ قسم کی ہوتی ہیں اور ان ظلمتوں کو دور کرنے کے لئے چراغ بھی پانچ قسم کے ہوتے ہیں ۔دنیا کی محبت تاریکی ہے ۔ جس کا چراغ پرہیز گاری ہے (٢)۔ معصیت اور گناہ بھی ایک تاریکی ہے جس کا چراغ توبہ ورجوع الی اللہ ہے۔(٣)۔ گوشہ قبر بھی خانہ تیرہ و تار ہے جس کا چراغ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔(٤)۔ غفلت و خود فراموشی سے آخرت میں بھی تاریکی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس کا چراغ عمل صالح ہے۔(٥)۔ اور پل صراط بھی ظلمت ہی ہے جس کا چراغ یقین و ایمان کامل ہے۔ والسراج لھا الیقین۔

قول علی مرتضیٰ:

ان من نعیم الدنیا یکفیک الاسلام نعمہ وان من اشغال الدنیا یکفیک الطاعہ شغلا وان من العبرة یکفیک الموت عبرة۔

ترجمہ: دنیا کی نعمتوں میں سے تجھے نعمت اسلام کافی ہے۔ دنیا کی مشغولیتوں میں سے تجھے مشغولی عبادت کافی ہے۔ دنیا کی عبرتوں میں سے تجھے عبرت موت کافی ہے۔

ارشاد حضرت علی:

حضرت علی جب قبرستان سے گزرتے یہ مقولہ دہراتے اور آنسو بہاتے یوں فرماتے:

  یا اھل القبور اموال کم قسمت

  اے قبر والوں تمہارا مال سب تقسیم ہو گیا۔

  ودیارکم سکنت۔

  تمہارے گھروں میں اور لوگ آباد ہو گئے۔

  ونساء کم زوجت۔

 تمہاری بیوی نے اورخاوند کرلیے

  واولاد کم حرمت۔

  تمہاری اولاد تمہاری شفقت سے محروم ہو گئی۔

عبرت انگیز اشعار

   الایا ساکن القصر المعلی

   ستد فن عن قریب فی التراب

   لہ ملک ینادی کل یوم

  لدو اللموت وابنوللخراب

خبردار اے محلات میں رہنے والا عنقریب مٹی میں دفن ہو گا۔

ہر روز فرشتہ اعلان کرتا ہے۔ آہ بچے مریں گے اور تعمیرات خراب وتباہ ہوں گی۔

اے غافل: تو ہنس رہا ہے ۔ تیرا کفن تیار ہوچکا ہے۔ تیری قبر اندھیرے میں ہے۔

ارشاد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی  :

فکم من کفن مفعول

وصاحبہ فی السوق مشغول

فکم من قبر محفور

وصاحبہ باالسرور مغرور

وکم من ضاحک

وھو عن قریب ھالک

وکم من منزل کمل بِنَاؤُہ

وصاحبہ قد اذن فناؤُہ

و کم من عبد یرجوا بشارةً

فیرولہ الخسارہ

وکم من عبد یرجو الثواب

فیرولہ العقاب

ترجمہ: بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو کر آ چکے ہیں ۔ مگر کفن پہننے والے ابھی تک بازاروں میں خرید و فروخت میں لگے ہوئے ہیں ۔ یعنی موت سے غافل ہیں ۔ بہت سے لوگوں کی قبریں کھود کر تیار ہوئیں ۔ مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں کرتے پھرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس وقت ہنستے خوشیاں کرتے پھرتے ہیں ۔ حالانکہ ہنسنے والے جلد ہلاک ہونے والے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کے ابھی محل و مکان نئے بن کر تیار ہوئے تھے یکایک مکان کے مالک کی موت کا وقت آگیا۔ بہت سے لوگ خوشی کی خبروں کے منتظر ہوتے ہیں ۔ اچانک ان کے سامنے رنج و مصیبت کی خبریں آ جاتی ہیں ۔ بہت سے لوگ برے عمل کرتے ہیں اور امید ثواب کی رکھتے ہیں ۔ مگر کیا ہوا۔ ان کا کیا ان کے سامنے آتا ہے۔

ماخوذ از کتاب: آخرت کی کہانی انسان کی زبانی، مولانا عبد الشکوردینپوری

 

 

کلمہ طیبہ کی فضیلت احادیث میں

0



 اَفْضَلُ الذِّکْرِ…  کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ

امام ربانی… حضرت مجدد الف ثانی… نور اللہ مرقدہ… کو مغل بادشاہ جہانگیر نے قید کر لیا تھا… آپ نے قید کے دوران اپنے گھر والوں کو جو قیمتی نصیحتیں فرمائیں انہیں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ… روزانہ… بارہ سو مرتبہ… کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ… کا ورد کیا کریں… یہ کلمہ… بے شک بہت… طیبہ یعنی پاکیزہ، پیارا اور پسندیدہ ہے اور اسی کا ذکر… افضل الذکر ہے… بہت سارے اولیاء کرام… اور علماء نے کلمہ طیبہ کو… اسم اعظم قرار دیا ہے… اس بحث کو دیکھنے کے لیے… آپ الکنزالاعظم… یا… لطف اللطیف جل شانہ… نامی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں۔ اگر کوئی خوش نصیب روزانہ بارہ سو کلمہ طیبہ کا … اہتمام کرتا رہے تو اس کے پاس… ہر دو مہینے میں… ستر ہزار کی تعداد میں یہ کلمہ طیبہ  جمع ہو جائے گا… عارفین کے نزدیک… کلمے کی یہ تعداد… بخشش کی خاص تاثیر رکھتی ہے… جی ہاں، وہی بخشش… جس کے ہم سب بے حد محتاج ہیں… بے حد محتاج… 

آیئے کلمہ طیبہ  لاالہ الااللہ کے ورد کے چند فضائل پڑھتے ہیں:

سب سے افضل ذکر

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب سے افضل ذکر ’’لاالہ الا اللہ‘‘ ہے۔ (ترمذی)

عرش تک جا پہنچا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ دل کے اخلاص کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو اس کے لئے لازماً آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ عرش الٰہی تک جا پہنچتا ہے۔ جب تک وہ شخص کبیرہ گناہوں سے 

بچتا رہے۔‘‘  (ترمذی)

ایمان کی تجدید

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے ایمان کی تجدید کیا کرو۔ عرض کیا گیا کہ یار سول اللہؐ! ہم کس طرح اپنے ایمان کی تجدید کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کثرت سے ’’لاالہ الا اﷲ‘‘ کہا کرو۔ (مسند احمد)



آسمانوں اور زمینوں سے بھاری

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (حضرت) موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا اے میرے رب، مجھے ایسی چیز سکھا دیجئے جس کے ذریعے میں آپ کا ذکر کروں یا آپ کو پکاروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ کہو ’’لاالہ الا اللہ‘‘ حضرت موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب! یہ کلمہ تو تیرے سارے بندے کہتے ہیں، میں تو ایسی چیز چاہتا ہوں کہ جو آپ خاص طور پر مجھے ہی عطاء فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔ اے موسیٰ! اگر ساتوں آسمان اور میرے سوا ان کے تمام رہنے والے اور ساتوں زمینیں ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور لاالہ الا اللہ دوسرے پلڑے میں تو لاالہ الا اللہ کا وزن ان سے زیادہ ہوگا۔  (شرح السنہ للبغوی)

سب سے پہلے شفاعت نبوی کا مستحق

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ فیض یاب ہونے والا کون ہوگا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے ابوہریرہ! حدیث کے بارے میں تمہارا حرص دیکھ کر میرا یہی گمان تھا کہ اس بات کو تم سے پہلے مجھ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔ میری شفاعت کی سب سے زیادہ سعادت اٹھانے والا قیامت کے دن وہ شخص ہوگا جو دل کے خلوص کے ساتھ ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کہے۔ (بخاری۔ حاکم)

جہنم کی آگ حرام

حضرت عمرو رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ نے ارشاد فرمایا میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو بندہ اسے دل سے حق سمجھ کر پڑھے گا اور پھر اسی پر اس کی موت آئے گی تو اللہ تعالیٰ ضرور اسے جہنم پر حرام کردے گا۔ وہ کلمہ ’’لاالہ الااللہ‘‘ ہے۔ (حاکم)

لا الہ الا اللہ کے ورد کو غنیمت جانو

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کا اقرار کثرت سے کرتے رہو اس سے قبل کہ تمہارے اور اس کے درمیان (موت) حائل کردی جائے۔ (ابویعلی)

جنت کی کنجیاں

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’لاالہ الا اللہ‘‘ کی گواہی دینا جنت کی کنجیاں ہیں۔ (مسند احمد)

برائیاں مٹا دینے والا کلمہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ بھی دن یا رات کی کسی گھڑی میں لا الہ الا اللہ کہتا ہے تو اس کے اعمال نامہ کی برائیاں مٹا کر ان کی جگہ نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ (ابویعلی)

براہ راست پہنچنے والا کلمہ

ترمذی کی روایت ہے،لا الہ الا اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور کوئی حجاب نہیں، یہاں تک کہ یہ کلمہ سیدھا اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے۔ (ترمذی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی حجۃ اللہ البالغہ میں فرماتے ہیں،لاالہ الا اللہ میں بہت سے خواص ہیں۔ پہلی خاصیت یہ ہے کہ وہ شرک جلی کو ختم کردیتا ہے۔ دوسری خاصیت یہ ہے کہ وہ شرک خفی (ریاکاری) کو بھی ختم کردیتا ہے اور تیسری خاصیت یہ ہے کہ وہ بندے کے اور معرفت الٰہی کے درمیان حجابات کو جلاکر معرفت کے حصول اور قرب کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ (حجتہ اللہ البالغہ)

وہ کلمہ طیبہ جو کفر کو مٹا دیتا ہو… گناہوں کو کس قدر دھوتا ہوگا۔ خود ہی… اندازہ لگایا جاسکتا ہے… کائنات کا بدترین کافر… اگر ایک بار… دل کے یقین کے ساتھ یہ کلمہ طیبہ  پڑھ لے تو اس کی زندگی بھر کا کفراور گناہ… ایک لمحہ میں مٹ جائیں گے اور جہنم سے… جنت کا طویل فاصلہ… پلک جھپکتے طے ہو جائے گا… پھر کیوں نہ ہم… وجد کے ساتھ… توجہ اور محبت کے ساتھ… باربار پڑھیں۔ ہزاروں بار۔ اور لاکھوں بار پڑھیں… لاالہ الا اللہ … لاالہ الا اللہ… لاالہ الا اللہ۔

کلمہ طیبہ  کے ورد کا طریقہ

کلمہ طیبہ  کے ورد کا طریقہ یہ ہے کہ ننانوے بار ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پڑھ کر… ایک مرتبہ پورا کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ پڑھ کر سو کا عدد مکمل کیا جائے… اور ہر مرتبہ اسی طرح کیا جائے۔


ہماری مَسجِد کا اِمام چور ہے!

0



 ہماری مَسجِد کا اِمام چور ہے!

افریقہ کے ایک ملک میں، ایک شخص حافظِ قُرآن و عالِمِ شریعت تھا۔اسی وجہ سے ایک مقتدی نے رمضان المبارک میں ان کو افطار میں اپنے گھر بلایاعالِم جی نے دعوت قبول کی اور افطار کے وقت اس مقتدی کے گھر پہنچے اور وہاں ان کا بہت شاندار استقبال کیا گیا،افطار کے بعد عالِمِ دِین نے میزبان کے حق میں دُعاء کی اور واپس چلے گئے، مقتدی کی بیوی نے عالم کے جانے کے بعد مہمان خانہ کی صفائی ستھرائی کی تو اسے یاد آیا کہ اس نے کچھ رقم مہمان خانہ میں رکھی تھی، لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ رقم اس عورت کو نہیں ملی اور اس نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ کیا تم نے وہ رقم لی ہے؟ شوہر نے جواب دیا: نہیں اور پھر اس نے یہ بات شوہر کو بتادی کہ مہمان کے علاوہ کوئی دوسرا فرد ہمارے گھر نہیں آیا اور ہمارا بچہ دوسرے کمرے میں تھا اور جھولے میں رہنے والا اتنا چھوٹا سا بچہ چوری نہیں کرسکتا۔

بالآخر دونوں اس نتیجہ پر پہنچے کہ: رقم مہمان نے چوری کی ہےاور یہ سوچتے ہوئے میزبان کے غم و غصہ کی انتہا نہ رہی کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم نے اتنے عزت و احترام کے ساتھ اپنے گهر بلایا اور انہوں نے یہ غلط کام کیا، اس شخص کو قوم کے لئے نمونۂ عمل ہونا چاہیئے تھا، نہ کہ چور ڈکیٹ،غم و غصہ کے باوجود اس شخص نے حیا کے مارے اس بات کو چهپا لیا، لیکن عالِمِ دِین سے دور دور رہنے لگا تا کہ سلام دُعاء نہ کرنی پڑے، اسی طرح سال گذر گیا اور پھر رمضان المبارک آگیا اور لوگ پھر اسی خاص محبت اور جوش و خروش کے ساتھ عالم دین کو اپنے گھروں میں افطار کے لیے بلانے لگے، اس شخص نے اپنی بیوی سے کہا: 

’’ہمیں کیا کرنا چاہیئے *مولانا صاحب کو گهر بلائیں یا نہیں؟

بیوی نے کہا:

 ’’بلانا چاہیئے، ممکن ہے مجبوری کے عالم میں انہوں نے وہ رقم اٹھائی ہو، ہم انہیں معاف کر دیتے ہیں تاکہ الله کریم بھی ہمارے گناہ معاف کردے۔‘‘

اور پھر اس شخص نے مولانا صاحب کو اسی عزت و احترام کے ساتھ اپنے گھر افطار پر بلایا اور جب افطار وغیرہ سے فارغ ہو گئے تو میزبان نے مہمان سے کہا:

’’جناب آپ نے محسوس کیا ہوگا کہ سال بھر سے آپ کے ساتھ  میرا رویہ بدل گیا ہے؟‘‘

عالم نے جواب دیا: 

ہاں، لیکن زیادہ مصروفیت کی وجہ سے میں آپ سے اس کی وجہ معلوم نہ کرسکا۔ 

میزبان نے کہا: 

’’قبلہ! میرا ایک سوال ہے اور مجھے امید ہے آپ اس کا واضح جواب دیں گے، 

’’پچھلے سال رمضان المبارک میں میری بیوی نے مہمان خانہ میں کچھ رقم رکھی تھی، اور پهر وہ رقم اٹھانا بھول گئی، اور آپ کے جانے کے بعد ڈھونڈنے کے باوجود وہ رقم ہمیں نہیں ملی،کیا رقم آپ نے لی تهی؟‘‘

عالم دین نے کہا:

 ہاں میں نے لی تهی،میزبان حیران و پریشان ہو گیا اور عالِم جی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: 

’’جب میں مہمان خانہ سے جانے لگا تومیں نے دیکها کہ کاونٹر پر پیسے رکھے ہوئے ہیں چونکہ تیز ہوا چل رہی تھی اور نوٹ ہوا سے ادھر ادھر اڑ رہے تھے، لہذا میں نے وہ نوٹ جمع کئے اور میں وہ رقم فرش کے نیچے یا کہیں اور نہیں رکھ سکا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ وہ رقم نہ ڈھونڈ سکو اور پریشان ہو جاؤ، اس کے بعد عالم نے زور سے اپنا سر ہلایا اور اُونچی آواز میں رونا شروع کر دیا اور پھر میزبان کو مخاطب کرکے کہا:

’’میں اس لئے نہیں رو رہا کہ تم نے مجھ پہ چوری کا الزام لگایا، اگرچہ یہ بھی بہت بہت تکلیف دہ ہے لیکن! میں اس لئے رو رہا ہوں کہ 365 دن گذر گئے اور تم میں سے کسی نے قرآنِ کریم کا ایک صفحہ بهی نہیں پڑها اور اگر تم قرآن کو ایک بار کھول کر دیکھ لیتے تو تمہیں رقم قرآن میں رکھی مل جاتی، یہ سن کر میزبان بہت تیزی سے اٹھ کر قرآن مجید اٹها کر لایا اور جلدی سے کھولا اور اس کی مکمل رقم قرآن مجید میں رکھی نظر آرہی تهی۔

یہ حال ہے آج ہم مسلمانوں کا کہ سال بھر قرآن نہیں کهولتے اور اپنے آپ  کو حقیقی اور سچا مسلمان سمجھتے ہیں۔ ذرا ذہن پر زور دے کر سوچیئے ہم نے اپنے گھر میں رکھے قرآن کریم کو آخری بار کب کھولا تھا اور تلاوت کی تھی، خیالات بدلیں معاشرہ بدلیں۔۔ شیئر ضرور کریں۔ اس طرح کی مزید اچھی اور بہترین تحریروں کے لئے فالو کریں شکریہ۔

تحریر:اقبال سعیدی

اہم اسلامی اصطلاحات اور اصول

0



 اہم اسلامی اصطلاحات اور اصول

اِیمان کی تعریف

اِیمان کے معنی لغت میں تصدیق کے ہیں، یعنی کسی قائل کو سچا سمجھ کر اس کی بات پر یقین کرنا اور اس کو قبول کرنا اور ماننا اور اصطلاح شریعت میں ایمان ان تمام دینی امور کو دل سے سچا جاننے اور ماننے کو کہتے ہیں، جن کا بطریق ضرورت و تواتر دین محمدی سے ہونا ثابت ہے۔

اِسلام کی تعریف 

اِسلام لغت میں اطاعت اور فرماں برداری کانام ہے یا یوں کہیں کہ اپنے آپ کو کسی کے حوالہ اور سپرد کر دینے کا نام اسلام ہے،اور اصطلاح شریعت میں نبی برحق کے حکم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے کا نام اسلام ہے ۔

نبی اور رسول کی تعریف

نبی وہ بر گزیدہ بندہ ہے کہ جس پر اللہ کی وحی آتی ہواور وہ ہدایتِ خلق اور تبلیغ احکام الٰہیہ پر مامور ہو، خواہ صاحب کتاب ہو یا نہ ہو اور انبیاء کرام میں سے جس کو من جانب اللہ کوئی خصوصی امتیاز حاصل ہو مثلاً اس کو کوئی نئی کتاب یا کوئی نئی شریعت دی گئی ہو یا منکرین اور مکذبین کے مقابلہ کا اس کو حکم دیا گیا ہو،یا کسی نئی امت کی طرف اس کو مبعوث کیا گیا ہو تو اس کور سول کہتے ہیں۔

معصوم کی تعریف

معصوم وہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کا مصطفی اور مرتضیٰ یعنی اخلاق اورعادات اور افعال اور ملکات اور تمام احوال میں من کل الوجوہ خداتعالیٰ کا برگزیدہ اور پسندیدہ ہو اور اس کا باطن مادّۂ معصیت سے بالکلیہ پاک ہو، یعنی مادہ شیطانی اور نفسانی سے اس کا قلب بالکلیہ پاک اور منزّہ ہو۔

مہدی کی تعریف

مہدی لغت میں ہر ہدایت یا فتہ کو کہتے ہیں ۔آنحضرت ﷺنے اخیر زمانہ میں جس مہدی کے ظہور کی خبر دی ہے، اس سے ایک خاص شخص مراد ہے جو حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا کی اولاد سے ہوگا، اس کا نام محمد اور اس کے باپ کا نام عبد اللہ اور ماں کا نام آمنہ ہو گا، سیرت واخلاق میں رسول اللہﷺ کے مشابہ ہوںگے ،مدینہ کے رہنے والے ہوں گے، مکہ میں ظہور ہوگا ،شام اور عراق کے اولیاء اور ابدال ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے ۔

اسلامی حکومت کی تعریف

اسلامی حکومت وہ ہے کہ جس کا نظام مملکت شریعت اسلامیہ کے ماتحت اور اس کے مطابق ہواور اس کا مذہب من حیث الحکومت اسلام ہو اور اس کا دستور اور آئین قانون شریعت ہواور حکومت من حیث الحکومت دل وجان سے دین اسلام کے اتباع کو فرض اور لازم سمجھتی ہواور زبان سے بھی اس کا اقرار کرتی ہو اور خلیفۂ اسلام اور بادشاہِ اسلام وہ شخص ہے کہ جو نبی کا نائب ہونے کی حیثیت سے شریعت اسلامیہ کے مطابق ملک میں ملکی اور ملی نظام جاری اور نافذ کرے۔

خلافت راشدہ کی تعریف 

پس اگر حکومت کا ملکی اورملی تما م نظام منہاجِ نُبوت پر ہو تو ایسی حکومت کو خلافت راشدہ کہتے ہیں ۔اس لئے کہ جو حکومت سراسر منہاج نبوت پر ہوگی تو وہ یقینا راشدہ (یعنی سراپارشدو ہدایت ) ہوگی ۔

بادشاہِ اسلام کی تعریف

بادشاہِ اسلام وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو ملک کا مالک حقیقی اور حاکم اصلی جانے اور مانے اور اللہ تعالیٰ کا بندہ اور رسول اللہ ﷺکے نائب اور قائم مقام ہونے کی حیثیت سے قانون شریعت کے مطابق ملک کا انتظام کرے ۔ لہٰذا اسلامی حکومت کے فرمانروا کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ وہ مسلمان ہو اور نبی آخر الزمانﷺ پر ایمان رکھتا ہو اور ظاہر ہے کہ نبیﷺ کو نہ ماننے والانبی ﷺ کا نائب اور قائم مقام نہیں ہو سکتا ۔

توحید کی تعریف

لفظ توحید وحدت سے نکلا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات میں فرد اور بیگانہ ہے، ذات اور صفات میں کوئی اس کا شریک اورحصہ دار نہیں، اور علم اور قدرت میں کوئی اس کا ہم پلہ نہیں، ایک وہی معبود برحق ہے، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، تمام صفات کمال کے ساتھ موصوف ہے ۔

شرک کی تعریف

شریعت میں اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات میں اور اس کی عبادت میں کسی کو شریک سمجھنے کو شرک کہتے ہیں ۔جیسے مجوس دومعبودوں کے قائل ہیں۔شرک کا استعمال ریاء کے معنی میں بھی آیا ہے، یہ شرک شرکِ عملی ہے، شرک اعتقادی نہیں یعنی یہ شرک کفر نہیں، لیکن مشرکوں اور بت پرستوں کے فعل کے مشابہ ہونے کی وجہ سے حرا م ہے اور ایسا کرنے والا سخت گنہگار ہے مگر کافر نہیں،مثلاً غیر اللہ کو سجدہ کرنا اگر بنیتّ عبادت و بندگی ہو تو ایسا کرنے والا کا فر اور مشرک ہے اور اگر بنیتّ سلام و اکرام اور بطریق تعظیم ہو تو یہ بلا شبہ حرام ہے اور اس کا مرتکب بلا شبہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے مگر دائرہ اسلام سے خارج نہیں، بت پرست اپنے بتوں کو معبود سمجھ کر اور شریک فی الالوہیت جان کر ان کو سجدہ کرتے تھے ،اس لیے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔

(از عقائد اسلام: مولا نا ادریس کاندھلویؒ)

وحی

وحی اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس کے کسی نبی پر اتارا گیا ہے ۔

وحی کی دو قسمیں ہیں

  ۱۔ وحی کتابی :یعنی وحی جو کتاب الٰہی کی آیات پر مشتمل ہو ، اس کو وحی متلوبھی کہتے ہیں،یعنی جس کی تلاوت کی جاتی ہے۔

  ۲۔ وحی غیر کتابی : یعنی کتاب الٰہی کے علاوہ احکام یا اخبار پر مشتمل وحی، اس کو وحی غیر متلو بھی کہتے ہیں ۔

قرآن پاک کی تعریف 

قرآن پاک (الفاظ و معانی کا وہ مجموعہ ہے جو ) محمد رسول اللہ ﷺپر نازل کیا گیا، اور مصاحف میں لکھا ہو ا ہے، اور آپ ﷺسے تو اتر کے ساتھ نقل ہوتا چلاآیا ہے ۔

سنت اور حدیث کی تعریف

رسول اللہ ﷺکے (قابل اتباع ) قول ، فعل اور تقریر کو سنت کہتے ہیں ۔رسول اللہ ﷺ کے وہ اقوال و اعمال جو قابل اتباع ہیں وہ سنت کہلاتے ہیں، جب کہ حدیث ان کے علاوہ اُن  اقوال و اعمال کو بھی کہتے ہیں جن میں اُمت کے لئے اتباع کا مفہوم نہیں ہے ۔

متواتر کی تعریف 

وہ حدیث ہے کہ اسے نقل کرنے والے اتنی کثیر تعداد میں ہوں کہ از روئے عادت ان سب کا جھوٹ پر اتفاق محال ہو ۔

خبر واحد 

وہ خبر و حدیث ہے جس کو نقل کرنے والے ہر دور میں یا کچھ ادوار یا کسی ایک دور میں حد تواتر سے کم ہوں، خواہ ایک ہو، یا دو ہوں، یا تین ہو ں، یا ان سے کچھ زائد ہوں ۔

اجماع

آنحضرت ﷺکی وفات کے بعد کسی زمانہ کے تمام فقہاء مجتہدین کا کسی حکم شرعی پر متفق ہو جا نا اجماع ہے ۔

قیاس 

قرآن و حدیث میں کسی چیز کا حکم (حرمت یا حلت) مذکور ہو، اور اُس حکم کی علت اور وجہ بھی معلوم ہو، پھر وہی وجہ اور علت ایک ایسی چیز میں پائی جائے کہ جس کا حکم صراحتاً قرآن و حدیث میں نہ ہو… اسی وجہ اور علت کی بنیاد پر پہلی چیز کا حکم اس پر بھی لگا دیا جائے، یہ قیاس کہلاتا ہے، پہلی چیز اصل اور دوسری فرع کہلاتی ہے۔

علم فقہ 

قرآن ،سنت ، اجماع اور قیاس احکام کے لئے اجمالی دلائل کہلاتے ہیں اور قرآن پاک کی متعلقہ آیات ، متعلقہ احادیث اور متعلقہ قیاس احکام کے تفصیلی دلائل کہلاتے ہیں اور تفصیلی دلائل سے شرعی وعملی احکام کے جاننے کو علم فقہ کہتے ہیں ۔

علم اصول فقہ

ان قواعد و ضوابط کو جانناجن کے ذریعے سے مجتہد احکام کو ان کے تفصیلی دلائل سے حاصل کرتا ہے۔

اجتہاد کی تعریف

شرعی ظنی حکم کو حاصل کرنے کے لئے فقیہ کا اپنی قوت خرچ کرنا ۔ اس کو اجتہاد کہتے ہیں ۔

مجتہد کی تعریف 

وہ فقیہ جو اجتہاد کی اہلیت و قوت رکھتا ہو اس کو مجتہد کہتے ہیںاور مجتہد کی دو قسمیں ہیں۔ مجتہد مطلق یعنی جس کو کسی بھی پیش آنے والے واقعہ میں اجتہاد کرنے کی قدرت حاصل ہو اور مجتہد فی البعض (یعنی جزوی مجتہد) کہ جس کو صرف بعض مسائل میں اجتہاد کرنے کی قدرت ہو۔

تقلید کی تعریف

تقلید کہتے ہیں کسی مجتہد کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ شرعی دلیل کے موافق بتائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔

بدعت کی تعریف

بدعت ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اصل شریعت سے ثابت نہ ہو یعنی قرآن اور حدیث میں اس کا ثبوت نہ ملے ،اور رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام اور تابعین اور تبع تابعین کے زمانہ میں اس کا وجود نہ ہو اور اسے دین کا کام سمجھ کر کیا جائے یا چھوڑا جائے۔

تکفیر 

تکفیر کا مطلب ہے کسی کے کفر کرنے پر یہ بتانا کہ اپنے فعل کی وجہ سے وہ کافر ہو گیا ہے۔ لہٰذا تکفیر کا مطلب کافر بنانا نہیں ہے بلکہ کافر بتانا ہے۔ (ماخوذاز اصول دین: ڈاکٹرمفتی عبد الواحد)





اخلاقیات

0


 

اخلاقیات

اخلاقیات (تصوف) کا تعلق انسان کے باطن سے ہے، جس کا جامع لفظوں میں خلاصہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باطن کو فضائل (یعنی اچھی صفات مثلاً تواضع، اخلاص، توکل) سے آراستہ کرے اور رذائل (یعنی حسد، تکبر وغیرہ) سے اپنے باطن کو پاک کرے۔ یہ دین کا بہت اہم حصہ اور شعبہ ہے اور باطن کی اصلاح کے بغیر ظاہری اعمال بے روح جسم کی طرح ہیں اور باطن کی اچھی صفات قرب الٰہی کا ذریعہ ہیں اور باطن کی خرابیاں اللہ تعالیٰ سے دوری کا سبب ہیں۔

ان کو اپنائیں

توبہ: (خطا کو یاد کر کے نادم ہونا، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرنا)

صبر: (دین کے تقاضہ کو نفسانی خواہش پہ مقدم کرنا)

شکر : (نعمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھنا)

رجا : (اللہ تعالیٰ سے رحمت کی اُمید رکھنا)

خوف: (خوف الٰہی)

زہد : (دنیا سے بے رغبتی)

توکل : (اسباب کے باوجود اللہ تعالیٰ پر نظر رکھنا)

محبت: ( اللہ کی محبت غالب ہو دوسروں کی محبت پر)

شوق : (اللہ تعالیٰ کی ملاقات کا شوق)

انس : (اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق خاص)

رضا : (اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر اعتراض نہ کرنا)

اخلاص: (اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا دھیان)

صدق : (قرب الٰہی میں کمال)

مراقبہ : (ہر وقت اللہ تعالیٰ کا دھیان)



ان سے بچیں

شہوت : (نفسانی خواہشات کا غلبہ)

آفاتِ زبان: (غیبت جھوٹ اور بدگوئی وغیرہ)

غضب: (غصہ)

حقد: (کینہ)

حسد : (دوسرے سے زوالِ نعمت کی خواہش)

حب دنیا : (دنیا کی محبت)

بخل : (کنجوسی)

حرص : (لالچ)

حب جاہ : (عہدہ کی لالچ)

ریاء : (دکھلاوا)

تکبر : (اپنے کو صفاتِ کمال میں دوسروں سے بڑھ کر سمجھنا)

عجب : (اپنے کمال کو اپنی طرف منسوب کرنا)

غرور : (نفس کے موافق عمل پر شیطان کے دھوکہ کی وجہ سے اطمینان ہو)

 اللہ تعالیٰ ہمیں پورے دین پر عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین 

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge