سب سے پہلا جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا کیا گیا؟

0

 




سب سے پہلا جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا کیا گیا؟

دینِ اسلام سے پہلے یہودیوں نے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا ۔ ہفتے کے دن اُن کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی اور عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممتاز کرنے کے لیے اپنا مذہبی دن اتوار کا  قرار دیا۔ اگرچہ اس کا  حکم نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دیا تھا، نہ انجیل میں کہیں اس کا تذکرہ ہے۔لیکن عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام اتوار کے دن قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے۔ اسی وجہ سے بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا۔اس کے بعد ۳۲۱ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعے سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممتاز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعے کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا۔

اسلام کا پہلا جمعہ کب اورکہاں پڑھا گیا؟

ہجرت سے پہلے سن 12نبوی میں یعنی ہجرت سے  ایک سال قبل جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا توانصارِمدینہ نے دیکھا کہ یہودی ہفتہ اور عیسائی اتوار کے دن عبادت کرتے ہیں تو انہوں نے باہمی مشورے سے جمعہ کا دن عبادت کے لیے طے کر لیا اور پہلا جمعہ حضرت اَسعد بن زُرَارَہ رضی اللہ عنہ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں پڑھا جس میں 40آدمی شریک ہوئے۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوں دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے دو اہم فتوے:

سوال

جمعہ کس سن ہجری اور کس تاریخ کو پہلی بار ادا کیا گیا اور امامت کس نے کروائی؟

جواب

سن 12نبوی  میں یعنی ہجرت سے  ایک سال قبل مدینہ منورہ میں صحابی رسول حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے جمعہ قائم فرمایااور حاضرین کو نماز پڑھائی۔اس کے چند روز بعد ہی باقاعدہ طور پر جمعہ قائم کرنے کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں تبلیغ دین کے لیے مامورحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کو والا نامہ بھیجا، چنانچہ انہوں نے مدینہ منورہ میں جمعے کے قیام کا اہتمام رکھا، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفس نفیس ہجرت فرماکر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

اور زمانہ جاہلیت میں سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجد کعب بن لوی نے جمعہ قائم کیاتھا۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سیرۃ المصطفیٰ ،جلد اول، ص:324،325،ط:کتب خانہ مظہری۔فقط واللہ اعلم

[فتوی نمبر : 143902200067،دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن]

جمعہ کی فرضیت اور آپ ﷺ کا پہلا جمعہ

سوال

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سب سے پہلے جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا فرمایا؟

جواب

نمازِ جمعہ مکہ معظمہ میں فرض ہوچکی تھی، لیکن اس کی سب سے پہلے ادائیگی مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے فرمائی،اس پہلے جمعہ میں 40حضرات شریک تھے، پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا جمعہ  "قبا" سے روانہ ہوکر محلہ بنو سالم بن عوف میں ادا فرمایا۔ جہاں بعد میں ایک مسجد بنادی گئی، جو "مسجدِ جمعہ" کے نام سے موسوم ہوئی۔ 

نوٹ: چوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مبلغِ اسلام بن کر آئے تھے اور انہی کی تبلیغ سے مدینہ منورہ میں اسلام پھیلا، اس لیے آپ ﷺ نے جمعے کے قیام کا خط حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نام جاری فرمایا، بنابریں مدینہ منورہ میں پہلے جمعے کے قیام کی نسبت حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف بھی کی جاتی ہے۔

البناية شرح الهداية (3/ 53):"وقال أهل السير والتواريخ: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نزل بقباء على بني عمرو بن عوف وذلك يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلةً خلت من شهر ربيع الأول حين اشتد الضحى، فأقام عليه السلام بقباء يوم الاثنين ويوم الثلاثاء ويوم الأربعاء ويوم الخميس، وأسس مسجدهم ثم خرج يوم الجمعة عامداً المدينة فأدركته صلاة الجمعة في بني سالم بن عوف في بطن واد لهم قد اتخذ القوم في ذلك الموضع مسجداً، وكانت هذه الجمعة أول جمعة جمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم في الإسلام، فخطب في هذه الجمعة وهي أول خطبة خطبها بالمدينة، فما قبلها وبعدها أول جمعة جمعت في الإسلام بقرية يقال لها: "جواثا" من قرى البحرين".

اعلاء السنن (8/33):"تتمة أولی: احتج بعض أکابرنا للمسألة بأن فرض الجمعة کان بمکة، ولکن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم لم یتمکن من إقامته هناک؛ وأقامها بالمدینة حین هاجر إلیها، ولم یقمها بقباء مع إقامته بها أربعة عشر یوماً، وهذا دلیل لما ذهبنا إلیه من عدم صحة الجمعة بالقری. أما أن فرض الجمعة کان بمکة، فبدلیل ما أخرجه الدارقطني من طریق المغیرة بن عبد الرحمٰن عن مالک عن الزهري عن عبید اللّٰه عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: أذن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم الجمعة قبل أن یهاجر ولم یستطع أن یجمع بمکة، فکتب إلی مصعب بن عمیر: أما بعد! فانظر الیوم الذي تجهر فیه الیهود بالزبور، فأجمعوا نساء کم وأبناء کم فإذا مال النهار عن شطره عن الزوال من یوم الجمعة فتقربوا إلی اللّٰه برکعتین قال: فهو أول من جمع حتی قدم النبي صلی اللّٰه علیه وسلم  المدینة فجمع عند الزوال من الظهر وأظهر ذلک، ذکره الحافظ في ’’التلخیص الحبیر‘‘ ۱:۱۳۳، وسکت عنه".  (إعلاء السنن ۸؍۳۳-۳۴ ، ادارۃ القرآن) فقط واللہ اعلم

 [فتوی نمبر:  1440042014666،دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن]



 

No comments:

Post a Comment

براہِ کرم! غلط یا حوصلہ شکن کمنٹ نہ کریں… آپ کا کمنٹ آپ کی ذات اور اخلاق کی پہچان ہے… اس لیے جلا بھنا یا ادب و آداب سے گرا ہوا کمنٹ آپ کے شایان شان ہرگز نہیں۔ شکریہ

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge