Showing posts with label دلچسپ و مفید مضامین. Show all posts
Showing posts with label دلچسپ و مفید مضامین. Show all posts

زندگی میں کام آنے والی باتیں

0



 زندگی میں کام آنے والی باتیں 

 :نمبر 1:-اگر کوئی آپ سے مشترکہ کاروبار کرنا چاہے تواس کےساتھ ایک پلیٹ میں کھانا کھاو اورمشاہدہ کرو کہ وہ کھانے کی بہتر چیز خود زیادہ کھاتا ہے یا تمھیں زیادہ کھلانا پسند کرتا ہے ۔دوسری صورت ہو تو کاروبار کرو جبکہ پہلی صورت ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کاروبار میں تم سے زیادہ لینے کی کوشش کریگا ۔

نمبر 2:-اگر کوئی آپ سے دوستی کرنا چاہے تو اسکے ساتھ ایک پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر اگر اس نے اپنے کو کرایہ سے بچایا کسی بھی طریقے سے تو اس کامطلب ہے کہ وہ آپ سے فائدہ لیناچاہتاہے دوستی کے قابل نہیں۔

نمبر 3:-اگر کوئی تم سے رشتہ جوڑنا چاہے تو اسکی کسی چیز کو معمولی نقصان پہنچاو ۔مثلاً اسکے جوتے پر سالن گرانا یاموبائل فون کو میز کے انتہائی کنارے پر رکھنا یا اس کے عینک کو چھیڑنا اگر اس نےاپنی چیز کی قیمتی ہونے کاچرچا کیا تو رشتہ مت جوڑنا کیوں کہ اس کو رشتے سے زیادہ پیسہ پسند ہے ۔

نمبر 4:-اگر آپ کاروبار کرتے ہیں اور کوئی آپ سے اُدھار مانگتا ہے تو اسکو قیمت بہت زیادہ بتانا اگر اسنے قیمت کم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی تو ادھار نہ دینا کیونکہ اس کو ادائیگی نہیں کرنی ہے اسلیے قیمت سے دلچسپی نہیں ۔

نمبر 5:-اگر کوئی اپنی ہر دوسری تیسری بات پر قسم اٹھاتا ہو ۔تو اسکی بات میں ضرور جھوٹ ہوگی وہ قسمیں اسلیے اٹھاتا ہے کہ اس کو اپنی جھوٹ  سچ ثابت کر نا ہو تا ہے۔

نمبر 6:-اگر تمھارا کوئی دوست تم سے اپنی کوئی برائی چھپاتا ہے تو اپ اس کو مت بولیں کہ تم کو سب کچھ معلوم ہے اگر تم نے ایسا کیا تو پھر وہ اس برائی کو تمھارے سامنے بھی کریگا ۔

نمبر 7:-بچوں کو برے کام سے منع کرتے وقت جن، بلا، یاجانور سے نہ ڈرانا کیوں کہ جب وہ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ چیزیں فرضی تھے تو وہ برائی واپس شروع کریگی۔بلکہ اللہ سے یا جہنم سے ڈرانا کیونکہ اس کی تصور تمام عمر ہوتا ہے ۔

نمبر 8:-بچوں کی ہر غلطی پر سزا نہ دینا کیونکہ اس سے اس کی ذہنیت ایسی بن جاتی ہے کہ بڑے ہوکر ہر غلطی کرنے والے سے لڑیگا ۔پھر ساری عمر جھگڑوں میں گزریگی ۔

نمبر 9:-اپنے ماں باپ سے اپنے بچوں کے سامنے بہت محتاط رہنا کیونکہ جو انداز تم اپناتے ہو وہی کل تمھاری اولادِ اپنائیگی ۔

 نمبر10:-معاشرے میں جس کا کوئی کام برا لگے وہ خود نہ کرنا ۔🌺🌺🌺🌸🌸🌸



کیوں کہ میں ماں ہوں

0

ایک عورت اپنے تین ماہ کا بچہ ڈاکٹر کو دکھانے آئی،کہ ڈکٹر صاحب میرے بچے کے کان میں درد ہیں،ڈاکٹر نے بچے کا معائینہ کیا اور کہا واقع اس کے کان میں انفیکشن ہوا ہے اور نوٹ پیڈ اٹھا کر کچھ دوائی لکھی اور رخصت کیا،میں حیران تھا،عورت جانے لگی تو میں نے آواز دے کر انہیں روکا، وہ رک کر پیچھے دیکھنے لگی جیسے کچھ بھول گئی ہو۔

میں نے کہا بہن جی آپ کا بچہ تین ماہ اور سات دن کا ہے جو بول بھی نہیں سکتا،تو آپ کو کیسے پتا چلا کہ اس کے کان میں تکلیف ہے، وہ مسکرائی اور میری طرف رخ کرکے کہنے لگی، بھائی جی، آپ کان کی تکلیف پہ حیران ہیں میں اس کے رگ رگ سے واقف ہوں،یہ کب روتا ہے،کب جاگتا ہے، کب سوتا ہے،مجھے اس کے سارے دن کا شیڈول پتہ ہے کیوں کہ میں ماں ہوں اس کی، انسان کو جب کوئی تکلیف ہو تو اس کے دن بھر کا شیڈول بدل جاتا ہے،اور کھانے پینے سونے جاگنے کے اوقات بدل جاتے،طبیعت خراب ہونے سے انسان ھر وقت بے چین رہتا ہے،کل رات سے میرا بچہ بھی خلاف معمول روئے جا رہا روئے جارہا ہے،رات جاگ کہ گزاری میں نے اس کے ساتھ، صبح کو میں نے غور کیا تو بچہ جب رو رہا تھا تو ساتھ ہی اپنا ننھا ہاتھ اپنے ننھی سی کان کی طرف لے جا رہا تھا،میں بچے کو اس کے باپ کے پاس لے گئی،کہ اس کہ کان میں درد ہے،وہ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے کہ مجھے کیسے پتا چلا، اس نے بچے کے کان پہ ھاتھ رکھا تو بچہ اور زور سے رونے لگا،اور میں بھی بچے کی تکلیف دیکھ کے رونے لگی،اپنے بچے کی تکلیف برداشت نہیں کرسکی،کیوں کہ میں ماں ہوں، عورت چلی گئی اور میں نم آنکھوں سے دیر تک کھڑا سوچتا رہا کہ ماں تین ماہ کے بچے کا دکھ درد سمجھ سکتی ہیں اور میں روزانہ ماں سے کتنی دفعہ جھوٹ بولتا ہوں اور وہ یقینًا میرے سارے جھوٹ جانتی ہیں کیوں کہ وہ ماں ہیں،،،تب سے میں نے کبھی ماں سے جھوٹ نہیں بولا،

اللہ سب ماؤں کو زندہ سلامت رکھیں اور جن کی ماں دنیا سے پردہ کر گئیں ہوں ” اللہ “ انہیں جنت الفردوس میں داخل کریں، آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 





وہ مجھے بھول گئے

0

 


‏1937 میں انگلینڈ میں - چیلسی اور چارلٹن کے مابین فٹ بال کا میچ 60 ویں منٹ میں شدید دھند کی وجہ سے رک گیا۔ لیکن چارلٹن کے گول کیپر سیمے بارٹرم کھیل کو روکنے کے 15 منٹ بعد بھی گول کے اندر موجود تھے-

کیونکہ اس نے اپنے گول پوسٹ کے پیچھے ہجوم ‏کی وجہ سے ریفری کی سیٹی نہیں سنی تھی۔ وہ اپنے بازوؤں کو پھیلائے ہوئے اور اپنی توجہ مرکوز کرکے گول پوسٹ پر کھڑا رہا- غور سے آگے دیکھتا رہا- پندرہ منٹ بعد جب سٹیڈیم کا سیکورٹی عملہ اس کے پاس پہنچا اور اسے اطلاع دی کہ میچ منسوخ کردیا ‏گیا ہے- تو سام برترم نے شدید غم کے ساتھ کہا:

 ”کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن کے دفاع کے لئے میں کھڑا تھا- وہ مجھے بھول گئے“- 

زندگی کے میدان میں کتنے ایسے ساتھی موجود ہوتے ہیں جن کے مفادات کے دفاع کیلۓ ہم نے اپنے وقت ,صلاحیت اور تواناٸ صرف کۓ ہوتے ہیں- لیکن حالات کی دھند میں وہ ہمیں بھول جاتے ہیں۔

دوست اور ساتھی چاہے کھیل کے میدان کے ہوں یا زندگی کے حالات و واقعات کے سرد اور گرم میں ہمیشہ انہیں یاد رکھ کر  ساتھ لیکر چلنا چاہۓ ایک اعلیٰ ظرف انسان کی طرح۔

عقیقہ کیا ہے؟ کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کی کتنی برکات ہیں؟

0

 


عقیقہ کیا ہے؟ کیوں کیا جاتا ہے؟ اس کی کتنی برکات ہیں؟

عقیقہ کا معنٰی مطلب

عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ / بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔

عقیقہ کے فوائد

اس کے چند اہم فوائد یہ ہیں:زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولود بچہ ، بچی کے نام سے خون بہاکر اللہ تعالیٰ سے اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔

یہ اسلامی Vaccination ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض پریشانیوں، آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل جاتی ہے۔ (ہمیں دنیاوی Vaccinations کے ساتھ اس Vaccination کا بھی اہتمام کرنا چاہئے)۔

بچہ، بچی کی پیدائش پر جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، خوشی کا اظہار ہوجاتا ہے۔

 بچہ / بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا، جیسا کہ حدیث نمبر2 میں ہے۔

عقیقہ کی دعوت سے رشتے دار، دوست واحباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے، جس سے ان کے درمیان محبت والفت پیدا ہوتی ہے۔

عقیقہ کے متعلق احادیث

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بچہ / بچی کے لیے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاوٴ اور اس سے گندگی (سر کے بال) کو دور کرو۔

(بخاری)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ / بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔

(ترمذی، ابن ماجہ ، نسائی، مسند احمد)

نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان : ”کل غلام مرتہن بعقیقتہ“ کی شرح علماء نے بیان کی ہے کہ کل قیامت کے دن بچہ، بچی کو باپ کے لیے شفاعت کرنے سے روک دیا جائے گا، اگر باپ نے استطاعت کے باوجود بچہ / بچی کا عقیقہ نہیں کیاہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حتی الامکان بچہ / بچی کا عقیقہ کرنا چاہیے۔

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے۔

(ترمذی ،مسند احمد)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے ۔ عقیقہ کے جانور مذکر ہوں یا موٴنث ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یعنی بکرا یا بکری جو چاہیں ذبح کردیں۔

(ترمذی ،مسند احمد)

رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے نواسے حضرت حسن اور حضرت حسین کا عقیقہ ساتویں دن کیا، اسی دن ان کانام رکھا اور حکم دیا کہ ان کے سروں کے بال مونڈھ دیے جائیں ۔

(ابو داوٴد)

ان مذکورہ و دیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ بچہ /بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا، بال منڈوانا، نام رکھنا اورختنہ کرانا سنت ہے۔ لہٰذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچہ /بچی کا عقیقہ کرسکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اس سنت کو ضرور زندہ کرے تاکہ عند اللہ اجرعظیم کا مستحق بنے، نومولود بچہ ،بچی کو اللہ کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے، نیز کل قیامت کے دن بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔

کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا شرط ہے؟

عقیقہ کرنے کے لیے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانہ کے ساتوں دن بچہ / بچی پر گزر جاتے ہیں۔ لیکن اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو توساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا اکیسویں دن کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عائشہ کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کے بجائے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقینا عقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی، اس کے فوائد ان شاء اللہ حاصل ہوجائیں گے، اگرچہ عقیقہ کا مستحب وقت چھوٹ گیا۔

کیا بچہ / بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے؟

بچہ / بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے ،وہ یہ ہے کہ بچہ کے عقیقہ کے لیے دو اور بچی کے عقیقہ کے لیے ایک بکرا / بکری ضروری ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لیے دو بکرے ذبح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکراسے بھی عقیقہ کرسکتا ہے ، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ابوداوٴد میں موجود ہے۔

بچہ / بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا؟

اسلام نے عورتوں کومعاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیا ہے جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا ، لیکن پھر بھی قرآن کی آیات: [وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَة](سورہ البقرة 238) [الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ] (سورة النساء 34) و احادیث شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے،جیسا کہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلاً حمل وولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف عورت ہی جھیلتی ہے۔ لہٰذاشریعت اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لیے دو اور بچی کے عقیقہ کے لیے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے ، اس کی حقیقت خالق کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔

عقیقہ میں بکرا، بکری کے علاوہ دیگر جانور مثلاً اونٹ گائے وغیرہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے؟

اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے ، مگر تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں بکرا/ بکری کے علاوہ اونٹ گائے کو بھی عقیقہ میں ذبح کرسکتے ہیں، کیوں کہ اس حدیث میں عقیقہ میں خون بہانے کے لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے بکرا ،بکری کی کوئی شرط نہیں رکھی،لہٰذااونٹ گائے کی قربانی دے کر بھی عقیقہ کیا جاسکتا ہے ۔ نیز عقیقہ کے جانور کی عمر وغیرہ کے لیے تمام علماء نے عیدالاضحی کی قربانی کے جانور کے شرائط تسلیم کیے ہیں۔

کیا اونٹ گائے وغیرہ کے حصہ میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے؟

اگر کوئی شخص اپنے دو لڑکوں اور دو لڑکیوں کا عقیقہ ایک گائے کی قربانی میں کرنا چاہے، یعنی قربانی کی طرح حصوں میں عقیقہ کرنا چاہے ، تو اس کے جواز سے متعلق علماء کا اختلاف ہے، ہمارے علماء نے قربانی پر قیاس کرکے اس کی اجازت دی ہے، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ اس طریقہ پر عقیقہ نہ کیا جائے، بلکہ ہر بچہ / بچی کی طرف سے کم از کم ایک خون بہایا جائے۔

کیا عقیقہ کے گوشت کی ہڈیاں توڑکر کھا سکتے ہیں؟

بعض احادیث اور تابعین کے اقوال کی روشنی میں بعض علمائے کرام نے لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے احترام کے لیے جانور کی ہڈیاں جوڑوں ہی سے کاٹ کر الگ کرنی چاہییں۔ لیکن شریعت اسلامیہ نے اس موضوع سے متعلق کوئی ایسا اصول وضابطہ نہیں بنایا ہے کہ جس کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتاہے ، کیوں کہ یہ احادیث اور تابعین کے اقوال بہتر وافضل عمل کو ذکر کرنے کے متعلق ہیں۔ لہذا اگر آپ ہڈیاں توڑکر بھی گوشت بناکر کھانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یاد رکھیں کہ ہندوستان اور پاکستان میں عموماً گوشت چھوٹا چھوٹا کرکے یعنی ہڈیاں توڑکر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

کیا بالغ مرد وعورت کا بھی عقیقہ جا سکتا ہے؟

جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا، جیسا کہ عموماً ہندوستان اور پاکستان میں عقیقہ چھوڑکر چھٹی وغیرہ کرنے کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، جوکہ غلط ہے۔ لیکن اب بڑی عمر میں اس کا شعور ہورہا ہے، تو وہ یقینا اپنا عقیقہ کرسکتا ہے، کیوں کہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ  صلی الله علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا ۔ (اخرجہ ابن حزم فی ”المحلّی“، والطحاوی فی ”المشکل“)․نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سرکے بال منڈوانا جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں،کیوں کہ بال کٹوائے بغیر بھی عقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔

دیگر مسائل

 قربانی کے جانور کی طرح عقیقہ کے جانور کی کھال یا تو غرباء ومساکین کو دے دیں یا اپنے گھریلو استعمال میں لے لیں۔

 کھال کو فروخت کرکے اس کی قیمت قصائی کو بطور اجرت دینا جائز نہیں ہے۔

 قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کو خود بھی کھاسکتے ہیں اور رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں۔

اگر قربانی کے گوشت کے3 حصے کرلیے جائیں تو بہتر ہے: ایک اپنے لیے ، ایک رشتے داروں کے لیے اور تیسرا حصہ غریبوں کے لیے، لیکن یہ تین حصے کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔

 عقیقہ کے گوشت کو پکاکر رشتے داروں کو بلاکر بھی کھلاسکتے ہیں اور کچا گوشت بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔

 ماخوذ ماہنامہ الفاروق کراچی

 

آپ کا بچہ بول رہا ہے

0



 آپ کا بچہ بول رہا ہے

آپ والدین  بڑے "وہ" ہیں۔چھوٹی چھوٹی  غلطیوں پر مجھے مارتے پیٹتے رہتے ہیں،  برا بھلا کہتے ہیں، دوسروں کا غصہ بھی مجھ پر نکالتے ہیں۔ایسا کرتے ہوئے آپ بھول جاتے ہیں کہ آپ بھی کبھی بچے تھے۔میری خواہش ہے کہ آپ اپنے آپ میں تبدیلی  پیدا کریں۔اپنے غصہ اور جذباتی پن پر کنٹرول کریں۔کیونکہ مجھے آپ کی مدد،دوستی،محبت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔آئیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ شاہراہِ زندگی پر یہ سفر ہنستے مسکراتے اور افہام و تفہیم کے ساتھ طے کیا جا سکے۔

آپ کا بیٹا /بیٹی

  جب  میں کوئی  اچھا کام کروں تو  مجھے شاباش ضرور دیں۔اس سے میری حوصلہ افزائی ہوتی ہے اورخوشی کا احساس ہوتا ہے۔
مسجد میں مجھے اپنے ساتھ لے جائیں۔نماز پڑھنا،نماز کے بعد ایک دوسرے کا حال، احوال دریافت کرنا اور لوگوں سے ہاتھ ملانا مجھے اچھا لگتا ہے۔
اپنے وعدے پورے کریں کیونکہ جب آپ کسی اچھے  کام پر مجھے انعام دینے کا وعدہ کرتے ہیں مگر نہیں دیتے تو میری نظروں میں آپ با اصول نہیں رہتے۔
  میرے ایمان اور صحت و سلامتی کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعاء کرتے رہیں اس سے میں اپنے آپ کو خوش قسمت اور محفوظ تصور کرتا ہوں۔
کبھی کبھی میرے لئے کھانے کی کوئی چیز وافر مقدار میں لائیں اور مجھے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر کھانے کا موقع دیں۔اس سے مجھ میں وسعتِ قلبی،اخوت اور محبت کا احساس پیدا  ہوتا ہے۔
  اس بات کا دھیان رکھیں کہ موبائل، ٹی وی، کمپیوٹر اور ویڈیو گیمز وغیرہ میری اخلاقی اور جسمانی صحت کو خراب  نہ کردیں۔
جب کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو میرے ساتھ پلیز چیخ چلا کر بات نہ کریں،آپ کو لال پیلا دیکھ کر میں اپنے آپ کو خوف زدہ اور بکھرا بکھرا سا محسوس کرتا ہوں۔
کبھی کبھی چھٹی کے دن مجھے اپنے ساتھ سیر و تفریح کیلئے لے جائیں۔سبز گھاس،خوبصورت پھول، آبشاریں،جھولے،پرندے اور جانور  مجھے اچھے لگتے ہیں۔
سزا دیتے وقت یہ بتانا نہ بھولیں کہ مجھے سزا کیوں دی جا  رہی ہے ؟ایسی وجوہات بتائیں جو میری سمجھ  میں آ سکیں۔
میری  موجودہ غلطی کے ساتھ گذشتہ غلطیوں کی فہرست نہ دہرائیں بڑوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں۔میں تو پھر بھی بچہ ہوں۔
مجھے نکما،بے وقوف اور گدھا کہہ کر نہ پکا را کریں۔کیا آپ ڈکشنری میں  میرے  لئے اس سے اچھے الفاظ  موجود نہیں؟
جب آپ مجھے خود قرآن مجید پڑھاتے ہیں اور سکول کا ہوم ورک کرنے میں میری مدد  کرتے ہیں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو واقعی مجھ سے محبت ہے۔ورنہ آجکل والدین کے پاس اپنے بچوں کے لئے وقت کہاں ہے ؟
جب گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی ہے اور آپ میرے ہاتھ  اس  میں سے کچھ حصہ  ہمسائے کے گھر بھجواتے ہیں تو مجھے عجیب سے روحانی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔
کبھی کبھار میرے دوستوں /سہیلیوں کو اہتمام کے ساتھ کھانے پر بلائیں ہمارے   اکٹھے  کھانا  کھانے سے مجھے اخوت اور بھائی  چارے کا  سبق ملتا ہے۔
اگر ممکن  ہو تو کم از کم ایک وقت کا کھانا میرے ساتھ ضرور کھائیں۔
جھے کھانے پینے کے آداب سکھانے کے ساتھ ساتھ بھوک رکھ کر کھانے کی عادت ڈالیں
کھانے کے معاملے میں کبھی کبھی میری پسندیدہ ڈش مجھ سے پوچھ کر تیار کروائیں۔
مجھے اپنے رشتے داروں کے بارے میں معلومات دیں اور وقتاً فوقتاً  ان سے ملاقات کا بھی اہتمام کریں۔
     آپ بڑے ہیں اور میں چھوٹا۔اس لئے میری غلطیوں پر در گزر کر کے اپنے بڑا ہونے  کا ثبوت دیں اور اچھے طریقے سے میری اصلاح کریں۔
جب آپ مجھ سے چیزیں چھپا  چھپا کر رکھتے ہیں تو میں اپنے دل میں عجیب سی تنگی محسوس کرتا  ہوں۔آپ کا ایسا رویہ مجھے چوری کی عادت ڈال سکتا ہے۔
مجھے شدت پسندانہ نظریات و خیالات سے دور رکھیں۔مجھے ان لوگوں  کے شر سے بچائیں جو فرقہ واریت،ذات پات،زبان اور رنگ و نسل کی بنیاد پر نفرتیں پھیلاتے ہیں ۔
مجھے میرے پیارے رسول ﷺ کی پیاری پیاری باتیں کہانی کی صورت میں بتایا کریں۔مجھے یہ باتیں بڑی پیاری لگتی ہیں۔جان سے بھی زیادہ پیاری۔
مجھے نماز سکھائیں اور اس میں پڑھے جانے والے الفاظ کا مفہوم  بھی سمجھائیں،مجھے نماز سمجھ کر اور باقاعدگی سے پڑھنے کی عادت ڈالیں۔
مجھے اپنے دوستوں کے بارے میں بتائیں اور کبھی کبھی ان کے ہاں لے بھی جائیں۔
مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے کھلونوں سے دوسرے بچوں کو بھی کھیلنے دوں۔
مجھے جنوں بھوتوں کی کہانیاں سنا کر بزدل نہ بنائیں بلکہ بہادر لوگوں کی کہانیاں  سنا کر بہادر بنائیں۔
مجھے بچوں کے اچھی اچھی سی ڈیز لا کر دیں۔یہ میری تربیت اور تفریح طبع کے لئے بہت ضروری ہیں۔تجھے کیا ملے گا نماز میں، قرآنی قصے،چاند نگر سے تٹرم تم تڑم،کیسٹ کہانی، نیکی کے ہم لوگ سپاہی،کلام اقبال عنایت چچا کی محفل،اے خدا !قرآن کی تفہیم دے،بہادر صیام،نغمات رمضان،عید کا تحفہ،بگلا بھگت،انگوروں کی چوری،محمد بن قاسم  (حصہ اول و دوم )پہلے انسان کی کہانی،نشانِ حیدر،مومن کا ہتھیار اور کامیابی کا زینہ بہت پیاری سی ڈیز ہیں۔یہ فہرست میرے دوست عرفان نے بنا کر دی ہے۔اس  نے اپنے گھر میں اچھے اچھے کیسٹ اور سی ٖڈیز کی ایک لائبریری بنائی ہوئی ہے۔
مجھے اچھی اچھی کتابیں پڑھنے کو لا کر دیں۔گلدستۂ قرآن،انمول،منزل،کہانی ایک لڑکے کی، زندہ باد مشغلہ،دو آنسو،سکارف،چندہ ماموں دور کے،نیک چڑیاں عظیم عطیہ،روشن راستہ، دلچسپ منصوبہ،فضائی  حملہ،کالا پتھر،گمنام محسن،پھول اور کانٹے،علم کا اجالا،تین دوست،خزانہ،واپسی،کاہلوں کی شہزادی،آزادی کا دن،اچھے بچوں کی اچھی عادتیں،عقل مند کون ؟،اور اچھا بچہ کون ؟وغیرہ تربیتی کہانیوں کی بہترین کتابیں ہیں۔میرے عرفان نے اپنے گھر میں ایسی کتابوں کی بھی ایک لائبریری بنائی ہوئی ہے۔
میرا سب سے قیمتی اثاثہ آ پ دونوں کی آپس کی محبت ہے۔
مجھے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے ابھی سے ذہنی طور پر تیار کریں۔
یاد رکھیں !آپ کی دیانت داری،مستقل مزاجی اور راست گوئی میری  شخصیت کو مضبوط اور پر اعتماد بنانے کیلئے بہت ضروری ہے۔
مجھے اپنے جیب خرچ میں سے کچھ رقم بچانے کی عادت ڈالیں۔اگر ممکن ہو تو مہینے بھر کا جیب خرچ اکٹھا ہی دے دیا کریں تاکہ میں اسے منصوبہ بندی کے ساتھ خرچ کر سکوں۔
میرے سوالوں کا جواب دیں چاہے احمقانہ ہی کیوں نہ ہوں۔
جب میں کسی سے برے رویہ سے پیش آؤں تو ضرور نشاندہی کریں مطلوب  اور غیر مطلوب رویوں سے مجھے اچھی طرح آگاہ کریں۔
  اگر میں اپنا ہوم ورک اچھے طریقے سے نہ کر پاؤں تو بجائے  برہم ہونے کے میری مدد کریں۔
  مجھے اپنے غصہ پر قابو پانے کا فن سکھائیں۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ جب کوئی میرا دوست /سہیلی ہمارے  گھر آئے  تو  آپ اسے خوشدلی سے خوش آمدید کہیں۔
میرے ساتھ مایوسی اور دل شکنی کی باتیں ہر  گز نہ کریں   بلکہ ہمت اور حوصلہ افزائی کرنے والی باتیں کریں۔
بات کو اس انداز سے شروع نہ کریں کہ جب میں تمہاری عمر کا تھا/تھی تو ۔۔۔۔۔۔کیونکہ ہر کوئی  ہر عمر میں مختلف صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے۔
  مجھے اپنی  آزادی دیں مگر اپنی نگرانی میں۔
جب میں اپنے دوستوں /سہیلیوں میں ہوتا /ہوتی ہوں تو براہ مہربانی میرے ساتھ ہی چمٹے رہنے سے گریز کریں۔
مجھے سب کے سامنے برا بھلا کہنے کی بجائے علیحدگی میں سمجھائیں۔
   آ پ کی طرف سے میرے  ماتھے پر دیا  ہوا بوسہ میرے سر کو فخر سے بلند کر دیتا ہے۔
    آپ کے منہ سے نکلے ہوئے تعریفی کلمات میری کامیابی کی منزل کو قریب تر کر سکتے ہیں۔
اپنے قیمتی وقت میں سے میرے لئے کچھ وقت ضرور نکالیں۔پاس بیٹھیں،مسکرائیں،کھیلیں یا کوئی دلچسپ سرگرمی کریں۔
مجھ سے میری عمر کے مطابق توقعات وابستہ کریں۔
    آپ کا میرے ساتھ مزاح اس بات کی علامت ہے کہ آپ میرے دوست بھی ہیں۔ [جاری ہے]

اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی

0



 اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی

میں تھانہ بھون ضلع مظفر نگر (یو پی) کے قریب ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ میر ا پرانا نام شالنی دیوی تھا۔ میرے والد کا نام چودھری بلی سنگھ تھا۔ میری شادی ہریانہ میں پانی پت ضلع کے ایک قصبے میں کرپال سنگھ سے ہوئی۔ اپنے پہلے شوہر کے ساتھ چودہ سال رہی۔ اب سے آٹھ سال پہلے میرے اللہ تعالی ٰنے مجھے اسلام کی دولت سے نوازا۔ اللہ تعالی ٰکے شکر سے میرے پانچ بچے ہیں جو میرے ساتھ مسلمان ہیں۔

مجھے بچپن ہی سے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیوں کی پوجا دل کو نہ بھاتی تھی۔ میں پیڑ، پودوں، پھولوں، چاند، ستاروں کو دیکھتی تو سوچتی کہ ایسی خوب صورت اور حسین چیزوں کو بنانے والا خود کتنا حسین ہو گا… میرے سسرال کے گاؤں میں  بہت سے مسلمان کپڑے وغیرہ کی تجارت کے لیے آتے تھے۔ وہ مجھے ایک مالک کی پوجا اور اللہ تعالی ٰکے آخری رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں بتاتے… میرے ساتھ میرے بچے بھی بڑی دل چسپی سے ان کی باتوں کو سنتے… ان کے جانے کے بعد میرے بچے مجھ سے کہتے کہ ماں ہم سب مسلمان ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا… کچھ دنوں بعد میں نے مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا اور قریب کے علاقے کے دو مسلمانوں کے ساتھ جا کر اپنے بچوں سمیت مسلمان ہو گئی۔

اسلام قبول کرتے ہی میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے قیامت برپا کر دی… میرے چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے حد ستایا، ہم سب کو جان سے مارنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر موت زندگی کا مالک ہماری حفاظت کرتا رہا… میرے اللہ پر مجھ کو بھروسا رہا اور ہر موڑ پر میں مصلے پر جا کر فریاد کرتی رہی اور اللہ تعالی ٰنے میری ہر موڑ پر مدد کی۔

میں کس منہ سے اپنے مالک کا شکر ادا کروں، میرے گھر والوں اور سسرال والوں نے جو بڑے زمیندار بھی ہیں مجھے منانے کی ہر ممکن کوشش کی جب میں نے فیصلہ سنا دیا کہ میں مر تو سکتی ہوں مگر اسلام سے نہیں پھر سکتی تو پھر انہوں نے میرے ساتھ بڑ ی سختی کی، مجھے درخت سے لٹکا دیا، درجنوں لوگ مجھے لاٹھی، ڈنڈوں سے پیٹنے لگے مگر وہ لاٹھیاں نہ جانے کہاں لگ رہی تھیں۔ میں اللہ تعالی ٰسے فریا د کرتی رہی، مجھے ایسا لگا کہ مجھے نیند آ گئی ہے یا میں بے ہوش ہو گئی ہوں، بعد میں مجھے ہوش آیا تو پولیس وہاں موجود تھی اور وہ لوگ بھاگ گئے تھے، مجھے لوگوں نے بتایا کہ اس پٹائی میں خود میرے چچا اور جیٹھ کے ہاتھ ٹوٹ گئے، وہ میرے بچوں کو مجھ سے چھین کر لے گئے، میرے بڑے بیٹے جس کا نام میں نے عثمان رکھا ہے ، اس کو گھر لے جا کر بہت مارا۔ وہ دو دن بعد کسی طرح جان بچا کر وہاں سے بھاگ گیا،اور  اپنے ایک مسلما ن دوست کے ہاں پنا ہ لی مگر میرے سسرال نے اسے وہاں بھی ڈھونڈ لیا۔ اس کو مارنے کے لیے وہ بہت سے بدمعاشوں کو چھروں اور چاقوؤں کے ساتھ لے آئے، تیرہ سال کا بچہ اور آٹھ دس لوگ چھریوں سے اسے مارنے لگے، میرے بچے نے چھری چھیننے کی کوشش کی، اسی کوشش میں نہ جانے کسطرح چھری خود مارنے والوں میں سے ایک کے پیٹ میں گھس گئی اور وہ فوراً مر گیا، اتنے میں ایک بس آ گئی، بس والے نے بس روک دی، سواریاں اتریں تو وہ سب لوگ بھاگ گئے، لوگوں نے دیکھا کہ وہاں ایک لڑکا تھا جس کے سارے جسم پر زخم تھے اور ایک شخص مرا ہوا پڑا تھا، پولیس آئی اور میرے بیٹے کو جیل بھیج دیا، جیل میں اس کی پٹائی ہوتی رہی، اس نے صاف بیان دیا کہ چھری چھینتے ہوئے میرے ہاتھ سے اس کے پیٹ میں گھس گئی، لڑکے کو بڑی جیل بھیج دیا گیا، میں رات رات بھر مصلے پر پڑی رہتی، میں نے سہارے کے لیے ایک مسلمان سے نکاح بھی کر لیا، عورتیں مجھے ڈراتیں کہ تیرے بچے اب تجھے ملنے والے نہیں اور تیرے بچے کی ضمانت کوئی نہیں کرائے گا۔

میرا بیٹا عثمان جیل میں نماز پڑھتا اور دعاء کرتا، ایک دن اس نے خواب دیکھا کہ ایک پردہ آسمان سے آیا اور لوگ کہہ  رہے ہیں کہ بی بی فاطمہ آسمان سے عثمان کی ضمانت کرانے آئی ہیں، ایک ہفتے بعد ایک دولت مند عورت نے عثمان کی ضمانت کرائی، ضمانت ہو گئی تو میں نے اسے دین سیکھنے کے لیے تبلیغی جماعت میں بھیج دیا، میں اپنے چار بچوں کی وجہ سے رویا کرتی اور میرے بچے بھی بہت تڑپتے، میری بچی چھپ کر نماز پڑھتی، اس کو نماز پڑھتا دیکھ کر میرے سسرال والوں نے اس پر مٹی کا تیل چھڑ ک دیا اور آگ جلانا چاہی مگر میرے اللہ نے اسے بچا لیا، انہوں نے چار بار دیا سلائی جلائی مگر ایک بال بھی نہیں جلا، پھر انہوں نے مشورہ کر کے کھیر پکائی اورکھیر میں زہر ملا دیا، وہ کھیر میری دونوں بچیوں کو کھلا دی مگر انہیں کچھ بھی نہ ہوا، میری جٹھانی کہنے لگی کہ اس کا مطلب ہے کہ یہ تو زہر ہی نہ تھا، اس نے کھیر چکھی اور فورا ً مر گئی۔

میرا بیٹا عثمان جماعت سے آیا، میں اور وہ پانی پت کے پاس ایک جگہ جا رہے تھے کہ ہمارے سسرال والوں نے ہمیں گھیر لیا۔ انہوں نے گولیاں چلائیں مگر ایک فائر بھی ہمیں نہ لگا ، گولیاں ہمارے دائیں بائیں سے گزر جاتی تھیں آخر تیئسواں فائر انہیں کے ایک آدمی کے لگ گیا اور وہ مر گیا، اس پر وہ بھاگ گئے۔ میں اپنے اللہ سے بچوں کو مانگا کرتی، میرے اللہ مجھے میرے بچے مل جائیں، ایک روز ایک عالم مسجد میں آئے انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کی ماں کا قصہ سنایا کہ اللہ تعالی ٰنے فرعون کے گھر میں ان کو ان کی ماں سے کیسے ملایا۔ میں گھر گئی اور سجدے میں گر گئی میرے اللہ جب توموسیٰ علیہ السلام کو ان کی ماں کی گود میں پہنچا سکتا ہے تو میرے بچوں کو کیوں نہیں ملا سکتا۔ میں تجھ پر ایمان لائی ہوں میں فریاد کرنے کس سے جاؤں، میں تیرے علاوہ کسی سے فریاد نہ کروں گی، ساری رات سجدے میں پڑی رہی، اسی عالم میں سو گئی۔ خواب میں دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے اللہ کی بندی خوش ہو جا تیرے بچے تیرے ساتھ ہی رہیں گے۔ صبح میرا بیٹا عثمان بس اڈے پر گیا، اس نے دیکھا کہ تینوں بہنیں چھوٹے بھائی کے ساتھ بس سے اتریں، وہ موقع پا کر بھاگ آئے تھے اور اندازے سے اس شہر آ رہے تھے۔ عثمان چاروں کو لے کر خوشی خوشی گھر آیا، میں پھر ساری رات شکرانے میں سجدے میں پڑی رہی، اس کے بعد پانچ چھ بار ایسا ہوا کہ میرے سسرال والے مجھے اور میرے بچوں کو تلاش کرتے کرتے آئے۔ ہم ان کو دیکھ لیتے مگر ایسا لگتا تھا کہ وہ اندھے ہو گئے ہیں کہ وہ ہمیں نہیں دیکھ پاتے تھے۔ مجھے ہر موڑ پر میرے مالک نے سہارا دیا میں اس کا کس طرح شکر ادا کروں۔

عثمان نے قرآن مجید پڑھ لیا۔ ہر سال تبلیغی جماعت کے ساتھ بھی جاتا ہے۔ میں دعاء کر کے اسے بھیج دیتی ہوں کہ حفاظت کرنے والا میرا مالک ہے۔

بڑی دو بیٹیوں کی شادی کر دی ہے دونوں داماد بہت دین دار اور نیک ہیں۔ میری بیٹیاں بھی بہت پکی اور سچی مسلمان ہیں، ان کی شادی کے وقت میرا بیٹا جیل میں تھا میرے اللہ نے اس کی ضمانت کا انتظام کر دیا اور اس نے خود اپنی بہنوں کو خوشی خوشی رخصت کیا۔ اب وہ اللہ کے فضل سے بری ہو گیا ہے، چھوٹی بچی اور بچہ مدرسے میں پڑھ رہے ہیں۔

میں نے ایمان لانے کے بعد قدم قدم پر اللہ کی مدد دیکھی مجھے نماز میں بہت مزہ آتا ہے۔ میں نے چھ سال سے تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین نہیں چھوڑی، میں نے کیا نہیں چھوڑی، میرے مالک نے چھوڑنے نہیں دی، جب بھی کوئی ضرورت ہوتی ہے مصلے پر جاتی ہوں اور اپنے مالک سے فریاد کرتی ہوں مشکل حل ہو جاتی ہے۔

ہمارے مسلمان بھائی بہن جن کو باپ دادوں سے اسلام مل گیا ہے انہیں اس کی قدر نہیں۔ انہیں بھی چاہیے کہ وہ بھی اللہ پر کامل یقین کریں اور پھر اس کی مدد دیکھیں۔

اب میرا ارادہ قرآن مجید حفظ کرنے کا ہے۔ اور اپنی دونوں بچیوں کو بھی دین کا سپاہی اور داعی بنانا ہے۔ چھوٹے بچے کو چاہتی ہوں کہ وہ بھی لاکھوں لوگوں کو مسلمان بنائے۔ مجھے امید ہے میرے اللہ میری تمنا ضرور پوری کر ے گا اس نے آج تک میری کوئی درخواست رد نہیں کی۔

(بشکریہ ماہنامہ 'اللہ کی پکار' نئی دہلی ، مئی ٢٠٠٨ ص ٤٢ تا ٤٥)

 

سب سے پہلا جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا کیا گیا؟

0

 




سب سے پہلا جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا کیا گیا؟

دینِ اسلام سے پہلے یہودیوں نے ہفتہ کا دن عبادت کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا ۔ ہفتے کے دن اُن کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی اور عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممتاز کرنے کے لیے اپنا مذہبی دن اتوار کا  قرار دیا۔ اگرچہ اس کا  حکم نہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے دیا تھا، نہ انجیل میں کہیں اس کا تذکرہ ہے۔لیکن عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ صلیب پر جان دینے کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام اتوار کے دن قبر سے نکل کر آسمان کی طرف گئے تھے۔ اسی وجہ سے بعد کے عیسائیوں نے اپنی عبادت کا دن قرار دے لیا۔اس کے بعد ۳۲۱ء میں رومی سلطنت نے ایک حکم کے ذریعے سے اس کو عام تعطیل کا دن مقرر کر دیا۔ اسلام نے ان دونوں ملتوں سے اپنی ملت کو ممتاز کرنے کے لیے یہ دونوں دن چھوڑ کر جمعے کو اجتماعی عبادت کے لیے اختیار کیا۔

اسلام کا پہلا جمعہ کب اورکہاں پڑھا گیا؟

ہجرت سے پہلے سن 12نبوی میں یعنی ہجرت سے  ایک سال قبل جب مدینہ میں اسلام پھیلنے لگا توانصارِمدینہ نے دیکھا کہ یہودی ہفتہ اور عیسائی اتوار کے دن عبادت کرتے ہیں تو انہوں نے باہمی مشورے سے جمعہ کا دن عبادت کے لیے طے کر لیا اور پہلا جمعہ حضرت اَسعد بن زُرَارَہ رضی اللہ عنہ نے بنی بیاضہ کے علاقے میں پڑھا جس میں 40آدمی شریک ہوئے۔

تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوں دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے دو اہم فتوے:

سوال

جمعہ کس سن ہجری اور کس تاریخ کو پہلی بار ادا کیا گیا اور امامت کس نے کروائی؟

جواب

سن 12نبوی  میں یعنی ہجرت سے  ایک سال قبل مدینہ منورہ میں صحابی رسول حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے جمعہ قائم فرمایااور حاضرین کو نماز پڑھائی۔اس کے چند روز بعد ہی باقاعدہ طور پر جمعہ قائم کرنے کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں تبلیغ دین کے لیے مامورحضرت مصعب بن عمیررضی اللہ عنہ کو والا نامہ بھیجا، چنانچہ انہوں نے مدینہ منورہ میں جمعے کے قیام کا اہتمام رکھا، یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی بنفس نفیس ہجرت فرماکر مدینہ منورہ پہنچ گئے۔

اور زمانہ جاہلیت میں سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جدامجد کعب بن لوی نے جمعہ قائم کیاتھا۔مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں سیرۃ المصطفیٰ ،جلد اول، ص:324،325،ط:کتب خانہ مظہری۔فقط واللہ اعلم

[فتوی نمبر : 143902200067،دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن]

جمعہ کی فرضیت اور آپ ﷺ کا پہلا جمعہ

سوال

حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سب سے پہلے جمعہ کہاں اور کس مسجد میں ادا فرمایا؟

جواب

نمازِ جمعہ مکہ معظمہ میں فرض ہوچکی تھی، لیکن اس کی سب سے پہلے ادائیگی مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے فرمائی،اس پہلے جمعہ میں 40حضرات شریک تھے، پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے پہلا جمعہ  "قبا" سے روانہ ہوکر محلہ بنو سالم بن عوف میں ادا فرمایا۔ جہاں بعد میں ایک مسجد بنادی گئی، جو "مسجدِ جمعہ" کے نام سے موسوم ہوئی۔ 

نوٹ: چوں کہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے مدینہ منورہ میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مبلغِ اسلام بن کر آئے تھے اور انہی کی تبلیغ سے مدینہ منورہ میں اسلام پھیلا، اس لیے آپ ﷺ نے جمعے کے قیام کا خط حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نام جاری فرمایا، بنابریں مدینہ منورہ میں پہلے جمعے کے قیام کی نسبت حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی طرف بھی کی جاتی ہے۔

البناية شرح الهداية (3/ 53):"وقال أهل السير والتواريخ: قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نزل بقباء على بني عمرو بن عوف وذلك يوم الاثنين لاثنتي عشرة ليلةً خلت من شهر ربيع الأول حين اشتد الضحى، فأقام عليه السلام بقباء يوم الاثنين ويوم الثلاثاء ويوم الأربعاء ويوم الخميس، وأسس مسجدهم ثم خرج يوم الجمعة عامداً المدينة فأدركته صلاة الجمعة في بني سالم بن عوف في بطن واد لهم قد اتخذ القوم في ذلك الموضع مسجداً، وكانت هذه الجمعة أول جمعة جمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم في الإسلام، فخطب في هذه الجمعة وهي أول خطبة خطبها بالمدينة، فما قبلها وبعدها أول جمعة جمعت في الإسلام بقرية يقال لها: "جواثا" من قرى البحرين".

اعلاء السنن (8/33):"تتمة أولی: احتج بعض أکابرنا للمسألة بأن فرض الجمعة کان بمکة، ولکن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم لم یتمکن من إقامته هناک؛ وأقامها بالمدینة حین هاجر إلیها، ولم یقمها بقباء مع إقامته بها أربعة عشر یوماً، وهذا دلیل لما ذهبنا إلیه من عدم صحة الجمعة بالقری. أما أن فرض الجمعة کان بمکة، فبدلیل ما أخرجه الدارقطني من طریق المغیرة بن عبد الرحمٰن عن مالک عن الزهري عن عبید اللّٰه عن ابن عباس رضي اللّٰه عنهما قال: أذن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم الجمعة قبل أن یهاجر ولم یستطع أن یجمع بمکة، فکتب إلی مصعب بن عمیر: أما بعد! فانظر الیوم الذي تجهر فیه الیهود بالزبور، فأجمعوا نساء کم وأبناء کم فإذا مال النهار عن شطره عن الزوال من یوم الجمعة فتقربوا إلی اللّٰه برکعتین قال: فهو أول من جمع حتی قدم النبي صلی اللّٰه علیه وسلم  المدینة فجمع عند الزوال من الظهر وأظهر ذلک، ذکره الحافظ في ’’التلخیص الحبیر‘‘ ۱:۱۳۳، وسکت عنه".  (إعلاء السنن ۸؍۳۳-۳۴ ، ادارۃ القرآن) فقط واللہ اعلم

 [فتوی نمبر:  1440042014666،دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن]



 

سیرۃ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں سب سے پہلی کتاب

0

 


سیرۃ  النبی صلی اللہ علیہ و سلم میں سب سے پہلی کتاب

143 ہجری میں جب تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ کی تدوین شروع ہوئی تو اور علوم کے ساتھ تاریخ و رجال میں بھی مستقل کتابیں لکھی گئیں۔ چنانچہ محمد بن اسحاق المتوفی 151 ہجری نے منصور عباسی کے لیے خاص سیرۃ نبوی پر ایک کتاب لکھی جو آج بھی موجود ہے۔ (مغازی محمد اسحاق کا ایک قلمی نسخہ مکتبہ کوپریلی استنبول میں موجود ہے۔ )

ہمارے مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ فن تاریخ کی یہ پہلی کتاب ہے۔ لیکن یہ صحیح ہے کہ اس سے پہلے موسیٰ بن عقبہ المتوفی 141 ہجری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مغازی قلم بند کئے تھے۔ موسیٰ نہایت ثقہ اور محتاط شخص تھے اور صحابہ کا زمانہ پایا تھا۔ اس لئے ان کی یہ کتاب محدثین کے دائرے میں بھی عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ (مغازی موسیٰ بن عقبہ 1904 عیسوی میں یورپ میں چھپ چکی ہے۔ موسیٰ بن عقبہ کے لئے تہذیب التہذیب و مقدمہ فتح الباری شرح صحیح بخاری دیکھیں)۔

اس کے بعد فن تاریخ نے نہایت ترقی کی اور بڑے بڑے نامور مؤرخ پیدا ہوئے۔ جن میں ابو محتف کلبی اور واقدی زیادہ مشہور ہیں۔ ان لوگوں نے نہایت عمدہ اور جدید عنوانوں پر کتابیں لکھیں۔ مثلاً واقدی نے افواج اسلام، قریش کے پیشے ، قبائل عرب کے مناظرات، جاہلیت اور اسلام کے احکام کا توارد، ان مضامین پر مستقل رسالے لکھے ، رفتہ رفتہ اس سلسلے کو نہایت وسعت ہوئی۔ یہاں تک کہ چوتھی صدی ہجری تک ایک دفتر بے پایاں تیار ہو گیا اور بڑی خوبی کی بات یہ تھی کہ ہر صاحب قلم کا موضوع اور عنوان جدا تھا۔

اس دور میں بے شمار مؤرخ گزرے ہیں۔ ان میں جن لوگوں نے بالتخصیص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے حالات میں کتابیں لکھیں، ان کی مختصر فہرست یہ ہے :

قدیم تاریخیں

نام مصنف

تصنیف

کیفیت

مدنی (حجم بن عبد الرحمٰن، المتوفی 170 ھ

غزوات نبوی

 

نصر بن مزاخم کوفی

کتاب الجمل یعنی حضرت علی رضی اللہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ کی لڑائی کا حال

 

سیف بن عمر الاسدی (سیف بن عمر کوفی خلیفہ ہارون رشید کے زمانہ میں فوت ہوا (تہذیب التہذیب جلد 4 )

کتاب الفتوح الکبیر

نہایت مشہور مؤرخ ہے

معمر بن راشد کوفی (معمر بن راشد کوفی 134 ھ (تہذیب التہذیب جلد 5 )

کتاب المغازی

امام بخاری کے استاذ الاستاذ تھے۔

ابو البحر وہب بن وہب

کتاب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ و سلم و کتاب فضائل الانصار

200 ھ میں انتقال کیا۔

عبد اللہ بن سعد زیری المتوری 380 ہجری

فتوحات خالد بن ولید رضی اللہ

 

ابو الحسن علی بن محمد بن عبد اللہ المدائنی، المتوفی 324 ھ

اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفاء کے حالات میں کثرت سے کتابیں لکھیں اور نئے عنوان اختیار کئے

 

احمد بن حارث خزاز

کتاب المغازی، اسماء الخلفاء و کتابہم

مدائنی کا شاگرد تھا

عبد الرحمٰن بن عبدہ

مناقب قریش

نہایت ثقہ اور معتمد مؤرخ تھا

عمر بن شبہ، المتوفی 262 ھ

کتاب امراء الکوفہ، کتاب امراء البصرۃ

مشہور مؤرخ تھا

قدماء کی جو تصنیفات آج موجود ہیں اگرچہ یہ تصنیفات آج ناپید ہیں۔ لیکن اور کتابیں جو اسی زمانے میں یا اس کے بعد قریب تر زمانے میں لکھی گئیں، ان میں ان تصنیفات کا بہت کچھ سرمایہ موجود ہے۔ چنانچہ ہم ان کے نام ان کے مصنفین کے عنوان سے لکھتے ہیں۔



عبد اللہ بن مسلم بن قتیبہ المتولد 213 ہجری والمتوفی 276 ہجری

 یہ نہایت نامور اور مستند مصنف ہے۔ محدثین بھی اس کے اعتماد اور اعتبار کے قائل ہیں۔ تاریخ میں اس کی مشہور کتاب "معارف " ہے۔ جو مصر وغیرہ میں چھپ کر شائع ہو چکی ہے۔ یہ کتاب اگرچہ نہایت مختصر ہے ، لیکن اس میں ایسی مفید معلومات ہیں جو بڑی بڑی کتابوں میں نہیں ملتیں۔

احمد بن داؤد ابو حنیفہ دینوی المتوفی 281 ہجری

 یہ بھی مشہور مصنف ہے۔ تاریخ میں اس کی کتاب کا نام "الاخبار الطوال" ہے۔ اس میں خلیفہ معتصم باللہ تک کے حالات ہیں۔ خلفاء راشدین کی فتوحات میں سے عجم کی فتح کو تفصیل سے لکھا ہے۔ یہ کتاب پورے یورپ میں بہ مقام لیڈن 1885 عیسوی میں چھپی ہے۔

محمد بن سعد کاتب الواقدی، المتوفی 230 ہجری

 نہایت ثقہ اور معتمد مؤرخ ہے ، اگرچہ ان کا استاد واقدی ضعیف الروایہ ہے۔ لیکن خود اس کے ثقہ ہونے میں کسی کو کلام نہیں۔ انہوں نے ایک کتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین اور تبع تابعین کے حالات میں نہایت بسط و تفصیل سے دس بارہ (طبقات ابن سعد کامل 8 جلدوں میں پہلے 1907 عیسوی میں لیڈن میں طبع ہوئی پھر اس کے بعد 1958 عیسوی میں بیروت میں طبع ہوئی ہے۔ ) جلدوں میں لکھی ہے۔ اور تمام واقعات کو محدثانہ طور پر بہ سند صحیح لکھا ہے۔ یہ کتاب طبقات ابن سعد کے نام سے مشہور ہے۔ میں نے اس کا قلمی نسخہ دیکھا ہے۔ اب جرمنی میں بڑے اہتمام سے چھپ رہی ہے۔

احمد بن ابی یعقوب واضح کاتب عباسی

 یہ تیسری صدی ہجری کا مؤرخ ہے۔  اس کے حالات رجال کی کتابوں میں نہیں ملے۔ لیکن اس کی کتاب خود شہادت دیتی ہے کہ وہ بڑے پایہ کا مصنف ہے ، چونکہ اس کو دولت عباسیہ کے دربار سے تعلق تھا۔ اس لیے تاریخ کا اچھا سرمایہ بہم پہنچا سکا ہے۔ اس کی کتاب جو " تاریخ یعقوبی" کے نام سے مشہور ہے ، یورپ میں بہ مقام لیڈن 1883 عیسوی میں چھاپی گئی ہے۔

احمد بن یحییٰ البلاذری المتوفی 279 ہجری

 ابن سعد کے شاگرد اور المتوکل باللہ عباسی کے درباری تھے۔ ان کی وسعت نظر اور صحت روایت محدثین کے گروہ میں بھی مسلم ہے۔ تاریخ و رجال میں ان کی دو کتابیں مشہور ہیں۔ فتوح البلدان و انساب الاشراف، پہلی کتاب کا یہ طرز ہے کہ بلاد اسلامیہ میں سے ہر ہر صوبہ یا ضلع کے نام سے الگ الگ عنوان قائم کئے ہیں۔ اور ان کے متعلق ابتدائے فتح سے اپنے عہد تک کے حالات لکھے ہیں۔ دوسری کتاب تذکرے کے طور پر ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات بھی ہیں۔ "فتوح البلدان " یورپ میں نہایت اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔ اور " انساب الاشراف " کا قلمی نسخہ قسطنطنیہ میں نظر سے گزرا ہے۔ (یہ کتاب تقریباً اجزا میں 1883 عیسوی میں یروشلم میں چھپ چکی ہے۔ )

ابو جعفر محمد بن جریر الطبری المتوفی 310 ہجری

 یہ حدیث و فقہ میں بھی امام مانے جاتے ہیں۔ چنانچہ ائمہ اربعہ کے ساتھ لوگوں نے ان کو مجتہدین کے زمرہ میں شمار کیا ہے۔ تاریخ میں انہوں نے نہایت مفصل اور بسیط کتاب لکھی ہے جو 13 ضخیم جلدوں میں ہے اور یورپ میں بہ مقام لیڈن نہایت صحت اور اہتمام کے ساتھ چھپی ہے۔

 ابو الحسن علی بن حسین مسعودی المتوفی 386 ہجری

 فن تاریخ کا امام ہے۔ اسلام میں آج تک اس کے برابر کوئی وسیع النظر مؤرخ پیدا نہیں ہوا۔ وہ دنیا کی اور قوموں کی تواریخ کا بھی بہت بڑا ماہر تھا۔ اس کی تمام تاریخی کتابیں ملتیں تو کسی اور تصنیف کی حاجت نہ ہوتی۔ لیکن افسوس ہے کہ قوم کی بد مذاقی سے اکثر تصانیف ناپید ہو گئیں، یورپ نے بڑی تلاش سے دو کتابیں مہیا کیں، ایک " مروج الذہب" اور دوسری کتاب الاشراف والتنبیہ (یہ مکتبہ العصریہ بغداد سے 1938 عیسوی میں شائع ہوئی۔ )۔ " مروج الذہب" مصر میں بھی چھپ گئی ہے۔ یہ تصنیفات جس زمانے کی ہیں وہ قدماء کا دور کہلاتا ہے۔

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge