مسواک فضیلت،احکام،آداب اور مواقع، مسواک کیسی ہو؟ برش وغیرہ کا حکم؟ مسواک کرنے کی دعاء

0

 مسواك فضيلت، احكام، آداب

مسواک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہم ترین سنتوں میں سے ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بے حد تاکید فرمائی ہے ۔ 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَوْلَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰى أُمَّتِيْ لَأَمَرْتُهُمْ بِالسِّوَاكِ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ۔

’’آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر دشواری کا خیال نہ ہوتا تو میں ان کو مسواک کا حکم دیتا۔‘‘ (۱)

  یعنی واجب قرار دیتا خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول کثرت سے مسواک کرنے کا تھا ، وصال مبارک سے چند لمحے قبل جب اتنی قوت بھی نہ تھی کہ خود مسواک کرسکیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نگاہ شوق کا اشارہ بھانپ کر ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے مسواک نرم کرکے دندان مبارک پر پھیر دی۔

عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ أَبَا عَمْرٍو ذَكْوَانَ، مَوْلَى عَائِشَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَقُولُ: إِنَّ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عَلَيَّ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ فِي بَيْتِي، وَفِي يَوْمِي، وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، وَأَنَّ اللَّهَ جَمَعَ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ: دَخَلَ عَلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَبِيَدِهِ السِّوَاكُ، وَأَنَا مُسْنِدَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ السِّوَاكَ، فَقُلْتُ: آخُذُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ: أَنْ نَعَمْ فَتَنَاوَلْتُهُ، فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: أُلَيِّنُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ: أَنْ نَعَمْ فَلَيَّنْتُهُ، فَأَمَرَّهُ الی آخر الحدیث  (2)

 اسی لئے مسواک کے مسنون ہونے پر علماء کا اتفاق ہے ۔

مسواک کے مواقع:

 یوں تو جس قدر مسواک کی جائے باعث اجر ہے لیکن پانچ مواقع پر مسواک کی اہمیت زیادہ ہے:

(۱) نماز سے پہلے فرض ہو یا نفل اور وضو کرکے نماز ادا کی جائے یا تیمم کرکے۔

(۲) جب دانت زرد ہوجائی۔

(۳) وضوء سے پہلے۔

(۴) قرآن مجید کی تلاوت کے وقت۔ 

(۵) جب منھ میں خلو معد ہ یا کسی خاص چیز کے کھانے یا کسی اور وجہ سے بو پیدا ہوجائے۔

وَأَمَّا الْأَحْوَالُ الَّتِي يَتَأَكَّدُ الِاسْتِحْبَابُ فِيهَا فَخَمْسَةٌ أَحَدُهَا عِنْدَ الْقِيَامِ إلَى الصَّلَاةِ سَوَاءٌ صَلَاةُ الْفَرْضِ وَالنَّفَلِ وَسَوَاءٌ صَلَّى بِطَهَارَةِ مَاءٍ أَوْ تَيَمُّمٍ أَوْ بِغَيْرِ طَهَارَةٍ كَمَنْ لَمْ يَجِدْ مَاءً وَلَا تُرَابًا وَصَلَّى عَلَى حَسَبِ حَالِهِ صرح به الشيخ أبو حامد المتولي وَغَيْرُهُمَا الثَّانِي عِنْدَ اصْفِرَارِ الْأَسْنَانِ وَدَلِيلُهُ حَدِيثُ السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ وَأَمَّا احْتِجَاجُ الْمُصَنِّفِ لَهُ بِحَدِيثِ الْعَبَّاسِ فَلَا يَصِحُّ لِأَنَّهُ ضَعِيفٌ كَمَا سَبَقَ الثَّالِثُ عِنْدَ الْوُضُوءِ اتَّفَقَ عَلَيْهِ أَصْحَابُنَا مِمَّنْ صَرَّحَ بِهِ صَاحِبَا الْحَاوِي وَالشَّامِلِ وَإِمَامُ الْحَرَمَيْنِ وَالْغَزَالِيُّ وَالرُّويَانِيُّ وَصَاحِبُ الْبَيَانِ وَآخَرُونَ وَلَا يُخَالِفُ هذا اختلاف الْأَصْحَابِ فِي أَنَّ السِّوَاكَ هَلْ هُوَ مِنْ سُنَنِ الْوُضُوءِ أَمْ لَا: فَإِنَّ ذَلِكَ الْخِلَافَ إنَّمَا هُوَ فِي أَنَّهُ يُعَدُّ مِنْ سُنَنِ الْوُضُوءِ أَمْ سُنَّةً مُسْتَقِلَّةً عِنْدَ الْوُضُوءِ لَا مِنْهُ: وَكَذَا اخْتَلَفُوا فِي التَّسْمِيَةِ وَغَسْلِ الْكَفَّيْنِ وَلَا خِلَافَ أَنَّهُمَا سُنَّةٌ: وَإِنَّمَا الْخِلَافُ فِي كونهما مِنْ سُنَنِ الْوُضُوءِ: وَدَلِيلُ اسْتِحْبَابِهِ عِنْدَ الْوُضُوءِ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ الله صلى الله عليه وسلم قال لولا أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي لَأَمَرْتهمْ بِالسِّوَاكِ مَعَ كُلِّ وُضُوءٍ وَفِي رِوَايَةٍ لَفَرَضْت عَلَيْهِمْ السِّوَاكَ مَعَ الْوُضُوءِ وَهُوَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ رَوَاهُ ابْنُ خزيمة والحاكم في صحيحهما وَصَحَّحَاهُ وَأَسَانِيدُهُ جَيِّدَةٌ وَذَكَرَهُ الْبُخَارِيُّ فِي صَحِيحِهِ فِي كِتَابِ الصِّيَامِ تَعْلِيقًا بِصِيغَةِ جَزْمٍ وَفِيهِ حَدِيثٌ آخَرُ فِي الصَّحِيحِ ذَكَرْته فِي جَامِعِ السُّنَّةِ تَرَكْته هُنَا لِطُولِهِ: الرَّابِعُ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ ذَكَرَهُ الْمَاوَرْدِيُّ وَالرُّويَانِيُّ وَصَاحِبُ الْبَيَانِ وَالرَّافِعِيُّ وغيرهم: الخامس عِنْدَ تَغَيُّرِ الْفَمِ وَتَغَيُّرُهُ قَدْ يَكُونُ بِالنَّوْمِ وَقَدْ يَكُونُ بِأَكْلِ مَا لَهُ رَائِحَةٌ كَرِيهَةٌ وَقَدْ يَكُونُ بِتَرْكِ الْأَكْلِ وَالشُّرْبِ وَبِطُولِ السُّكُوتِ قَالَ صَاحِبُ الْحَاوِي وَيَكُونُ أَيْضًا بِكَثْرَةِ الْكَلَامِ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ* هَذِهِ الْأَحْوَالُ الْخَمْسَةُ الَّتِي ذَكَرَهَا أَصْحَابُنَا ۔(۳)

  اذرعی نے دو اور صورتوں کا اضافہ کیاہے ۔

(۱) سونے سے پہلے۔

(۲) نیند سے بیدار ہونے کے بعد۔

 زبیدی نے دو اور صورتیں بڑھائی ہیں۔ 

(۱) ہم بستری سے پہلے۔ 

(۲) باہر سے گھر واپس آنے کے بعد۔ 

عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ إِذَا دَخَلَ بَيْتَهُ بَدَأَ بِالسِّوَاكِ۔(۴)

 تاہم نماز اور وضوء کے موقعوں پر مسواک کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص ہدایت فرمائی ہے۔

 وضوء سے پہلے مسواک کا مطلب یہ ہے کہ وضوء شروع کرنے سے پہلے مسواک کی جائے بلکہ مسواک ہی سے وضوء شروع کیاجائے ۔

مسواک کیسی ہو؟

 مسواک کی لکڑی نرم ہونی چاہیے جس سے دانت وغیرہ صاف ہوسکیں اور مسوڑھوں پرخراش نہ آئے:

وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يَكُونَ السِّوَاكُ عُودًا لَيِّنًا يُنَقِّي الْفَمَ(۵)

 پیلو (اراک) کی مسواک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ پسند تھی:

عَنْ أَبِي خَيْرَةَ الصُّبَاحِيِّ قَالَ: كُنْتُ فِي الْوَفْدِ الَّذِينَ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَزَوَّدَنَا الْأَرَاكَ نَسْتَاكُ بِهِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ عِنْدَنَا الْجَرِيدُ، وَلَكُنَّا نَقْبَلُ كَرَامَتَكَ وَعَطِيَّتَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ الْقَيْسِ إِذْ أَسْلَمُوا طَائِعِينَ غَيْرَ مُكْرَهِينَ إِذْ قَعَدَ قَوْمٌ لَمْ يُسْلِمُوا إِلَّا خَزَايَا مَوْتُورِينَ(۶)

 مسواک کے نہ ہونے یاکسی وجہ سے نہ کرنے کی صورت میں انگلیاں بھی کافی ہیں، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیاہے کہ وضوء کے وقت تمہاری انگلیاں بھی مسواک کے قائم مقام ہیں :

 عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إنَّكَ رَغَّبْتَنَا فِي السِّوَاكِ، فَهَلْ دُونَ ذَلِكَ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالَ: أُصْبُعَيْك، سِوَاكٌ عِنْدَ وُضُوئِك، أَمِرَّهُمَا عَلَى أَسْنَانِك، إنَّهُ لَا عَمَلَ لِمَنْ لَا نِيَّةَ لَهُ، وَلَا أَجْرَ لِمَنْ لَا حَسَنَةَ لَهُ۔(۷)

 برش وغیرہ کا حکم

موجودہ زمانہ کے برش وغیرہ کا حکم یہ ہے کہ فعل مسواک کے اعتبار سے ان کے ذریعہ سنت اداہوجائے گی البتہ خود مسواک کی سنت اس کے ذریعہ ادانہ ہوسکے گی، اسی طرح مسواک نہ کرنے کی وجہ سے جو کراہیت پیداہوتی ہے اس سے بچنے کے لئے یہ برش وغیرہ کافی ہوجائیں گے ۔ واللہ اعلم

 طریقے اور آداب

 مسواک کا طریقہ یہ ہے کہ اس کو طولا اور عرضا دونوں طرح کیاجائے گا:

وَيَسْتَاكُ عَرْضًا، لَقَوْلِهِ - عَلَيْهِ السَّلَامُ -:اسْتَاكُوا عَرْضًا، وَادَّهِنُوا غِبًّا، وَاكْتَحِلُوا وِتْرًا ؛ وَلِأَنَّ السِّوَاكَ طُولًا مِنْ أَطْرَافِ الْأَسْنَانِ إلَى عَمُودِهَا رُبَّمَا أَدْمَى اللِّثَةَ وَأَفْسَدَ الْعَمُودَ.(۸)

  بہتر یہ ہے کہ زبان پر طولا کرے اور دانتوں پرعرضا  دانتوں پر عرضاً مسواک کرنے کے سلسلہ میں ایک روایت بھی ہے مسواک دانت کے اندرونی ، بیرونی اور داڑھوں پر کی جائے، حلق کے بالائی حصہ پر بھی آہستہ ملی جائے :

يُسْتَحَبُّ أَنْ يَسْتَاكَ عَرْضًا فِي ظَاهِرِ الْأَسْنَانِ وَبَاطِنِهَا وَيُمِرَّ السِّوَاكَ عَلَى أَطْرَافِ أَسْنَانِهِ وَكَرَاسِيِّ أَضْرَاسِهِ وَيُمِرَّهُ عَلَى سَقْفِ حَلْقِهِ إمْرَارًا خَفِيفًا۔(۹)

دائیں طرف سے شروع کی جائے:

 يُسْتَحَبُّ أَنْ يَبْدَأَ فِي الِاسْتِيَاكِ بِجَانِبِ فَمِهِ الْأَيْمَنِ۔(۱۰)

 دوبارہ مسواک کرنے سے پہلے دھو لی جائے۔ بچوں کو بھی اس کی عادت ڈالی جائے، مسواک کرتے ہوئے اداء سنت کی نیت رکھی جائے :

وَيُسْتَحَبُّ أَنْ يُعَوِّدَ الصَّبِيَّ السِّوَاكَ لِيَأْلَفَهُ ۔(۱۱)

مسواک کرنے کی دعاء

 حدیث میں مسواک کی کوئی خاص دعاء منقول نہیں مگر سلف سے بعض معمولات منقول ہیں مثلاً سے پہلے یہ دُعا  قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يَقُولَ عِنْدَ ابْتِدَاءِ السِّوَاكِ اللَّهُمَّ بَيِّضْ بِهِ أَسْنَانِي وَشُدَّ بِهِ لَثَاتِي وَثَبِّتْ بِهِ لَهَاتِي وَبَارِكْ لِي فِيهِ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ

’’یا اللہ اس کے ذریعہ میرے دانتوں کو صاف و سفید بنا، میرے داڑھوں کو مضبوطی عطاء فرما اور میرے حلق کے کوے کو قائم رکھ اور اے ارحم الراحمین! اس میں مجھے برکت مرحمت فرما۔ (۱۲)

مصادر و مراجع

(1) سنن ترمذی۔باب ما جاء فی السواک،حدیث رقم:۲۲،مكتبة مصطفیٰ- مصر

(2)صحیح بخاری۔باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم ووفاته،حدیث رقم:۴۴۴۹،طبع:دار طوق النجاة

(3) المجموع شرح المهذب۔ج:۱،ص:۲۷۳، طبع: دار الفکر۔بیروت

(4)صحیح مسلم۔باب السواك،حدیث رقم:۲۵۳،طبع:دار إحياء التراث العربي - بيروت

(5) المغني لابن قدامة۔ج:۱،ص:۷۲، ناشر:مكتبة القاهرة

(6)مجمع الزوائد ومنبع الفوائد۔باب بأي شيء يستاك حديث رقم:۲۵۷۵، ناشر:مكتبة القدسي، القاهرة

(7)المغني لابن قدامة۔ج:۱،ص:۷۲، ناشر:مكتبة القاهرة

(8)المغني لابن قدامة۔ج:۱،ص:۷۲، ناشر:مكتبة القاهرة

(9)المجموع شرح المهذب۔ج:۱،ص:۲۸۱، طبع: دار الفکر۔بیروت

(10)المجموع شرح المهذب۔ج:۱،ص:۲۸۲، طبع: دار الفکر۔بیروت

(11)المجموع شرح المهذب۔ج:۱،ص:۲۸۳، طبع: دار الفکر۔بیروت

(12)المجموع شرح المهذب۔ج:۱،ص:۲۸۳، طبع: دار الفکر۔بیروت



No comments:

Post a Comment

براہِ کرم! غلط یا حوصلہ شکن کمنٹ نہ کریں… آپ کا کمنٹ آپ کی ذات اور اخلاق کی پہچان ہے… اس لیے جلا بھنا یا ادب و آداب سے گرا ہوا کمنٹ آپ کے شایان شان ہرگز نہیں۔ شکریہ

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge