نماز…… باجماعت

1



 نماز…… باجماعت

اللہ تبارک وتعالیٰ نے صرف نماز پڑھنے کا نہیں بلکہ نماز قائم کرنے کا حکم فرمایا ہے… اور اقامۃ صلوٰۃ کا اہم حصہ یہ ہے کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کی جائے… ہم اس اہم موضوع پر دس احادیث مبارکہ ذکر کررہے ہیں… تاکہ اسلام کے اس اہم حکم کی حقیقی اہمیت دلوں میں بیٹھ جائے…ہر حدیث کو اس نیت سے پڑھیے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خطاب فرما رہے ہیں۔

ہدایت و سعادت والا طریقہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

 ہم نے خود کو (یعنی مسلمانوں کو) اس حال میں دیکھا ہے کہ نماز باجماعت میں شریک نہ ہونے والا یا تو بس کوئی ایسا منافق ہوتا تھا جس کا نفاق سب کو معلوم ہوتا تھا یا کوئی مریض ہوتا… (جبکہ) بعض مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے چل کر آتے تھے اور نماز میں شریک ہوتے تھے… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ’’سنن الھدیٰ‘‘ (یعنی ہدایت و سعادت والے طریقوں اور راستوں) کی تعلیم دی اور انہی سنن الہدیٰ میں سے یہ بھی ہے کہ جس مسجد میں اذان دی جاتی ہو اس میں جماعت سے نماز ادا کی جائے۔  

(مسلم ص ۲۳۲، ج۱)

 گمراہی کا خطرہ ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

جس کیلئے یہ بات باعث مسرت ہو کہ کل وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حالت اسلام میں حاضر ہو تو اسے چاہئے کہ وہ ان نمازوں کو ایسی جگہ ادا کرنے کا اہتمام کرے جہاں اذان ہوتی ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ہدایت کے طریقے مقرر فرمائے ہیں اور نمازوں کی حفاظت بھی انہیں طریقوں میں سے ہے اگر تم لوگ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے لگو گے جیسا کہ فلاں شخص پڑھتا ہے تو تم نبی کے طریقے کو چھوڑنے والے بنو گے اور اگر تم نبی کے طریقے چھوڑو گے تم یقینا گمراہ ہوجائو گے۔

(مسلم ص ۲۳۲،ج۱)

 ستائیس گنا افضل

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

 جماعت کی نماز اکیلے آدمی کی نماز سے ستائیس ِدرجہ افضل ہے۔  

(بخاری ، مسلم ص ۲۳۱، ج۱)

نابینا کو جماعت میں شرکت کا حکم

ایک نابینا صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کیا:

 اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا کوئی آدمی میسر نہیں ہے جو مجھے مسجد تک لا سکے پس مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت عطاء فرما دی پھر جب وہ جانے لگے تو آپ نے انہیں بلا کر پوچھا کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو انہوں نے جواب دیا، جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذان کی پکار پر لیبک کہا کرو… یعنی مسجد میں آیا کرو ۔

  (مسلم :ص۲۳۲، ج۱)

لوگ گھسِٹ گھسِٹ کرآئیں

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

منافقوں پر کوئی نمازبھی فجر اور عشاء کی نماز سے زیادہ بھاری نہیں ہے اور اگر وہ جانتے کہ ان دونوں میں کیا (اجر وثواب) ہے تو وہ ضرور ان نمازوں کیلئے (مساجد میں ) حاضر ہوتے اگرچہ انہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا… میرے دل میں آتا ہے کہ میں موذن کو حکم دوں کہ وہ اقامت کہے پھر کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کی امامت کرے پھر میں آگ کا شعلہ لے کر ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو نماز (کی جماعت میں شرکت) کیلئے نہیں نکلتے۔

(بخاری ؍مسلم :ص۲۳۲،ج ۲)

گھروں کیلئے آگ

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لوگوں کو چاہئے کہ وہ جماعت چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ میں ان کے گھروں میں آگ لگا دوں گا۔ 

(کنز العمال بحوالہ ابن ماجہ)

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین ہیں آپ سراپا رحمت تھے ۔ یقینا جماعت سے نماز نہ پڑھنا… امت کیلئے اتنا خطرناک ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے تاب ہو کر اتنی سخت وعید فرما رہے ہیں… محبت کرنے والی ماں… بچے پر ہاتھ تبھی اٹھاتی ہے جب وہ اپنا کوئی بڑا نقصان کررہا ہو… حدیث مبارکہ کی تشریح میں حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی  ؒ لکھتے ہیں:

اللہ اکبر! کتنی سخت وعید ہے اور کیسے جلال اور غصہ کا اظہار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان لوگوں کے حق میں جو آپ کے زمانے میں جماعت میں غیر حاضر ہوتے تھے… یہ تارکین جماعت جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے سخت غصہ کا اظہار فرمایا خواہ عقیدے کے منافق ہوں یا عمل کے منافق (یعنی دینی اعمال میں سستی اور کوتاہی کرنے والے) بہرحال اس وعید اور دھمکی کا تعلق ان کے عمل ’’ترک جماعت‘‘ سے ہے اسی بنا پر بعض ائمہ سلف (جن میں سے ایک امام احمد بن حنبل بھی ہیں) اس طرف گئے ہیں کہ ہر غیر معذور شخص کیلئے جماعت سے نماز پڑھنا فرض ہے۔ یعنی ان کے نزدیک جس طرح نماز پڑھنا فرض ہے اسی طرح اس کو جماعت سے پڑھنا ایک مستقل فرض ہے اور جماعت کا تارک ایک فرض عین کا تارک ہے… لیکن محققین احناف نے ’’جماعت‘‘سے متعلق تمام احادیث کو سامنے رکھ کر یہ رائے قائم کی ہے کہ اس کا درجہ واجب کا ہے اور اس کا تارک گنہگار ہے۔ اور مندرجہ بالاحدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ایک طرح کی تہدید اور دھمکی ہے واللہ اعلم

آگ اور نفاق سے نجات

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جو شخص چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز (باجماعت) ادا کرے تو اس کیلئے دو براتیں لکھ دی جاتی ہیں… جہنم سے برات اور نفاق سے برات۔ 

(ترمذی)

نور تام کی بشارت

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

ان لوگوں کو قیامت کے دن کے پورے پورے نور کی خوشخبری سنا دو جو لوگ اندھیرے میں بکثرت مسجدوں میں جاتے رہتے ہیں۔ 

(ابن ماجہ)

رحمت کی دعاء

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

آدمی کی وہ نماز جو جماعت سے پڑھی ہو اس نماز سے جو گھر یا بازار میں پڑھی ہو پچیس گنا افضل ہے اور یہ اس لئے کہ آدمی جب وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مسجد کی طرف صرف نماز کیلئے نکلتا ہے (کسی اور ارادے سے نہیں) تو جو قدم بھی اٹھاتا ہے اس پر اس کا ایک درجہ بلند کردیا جاتا ہے اور اس کا ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے اور پھر جب نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے تو جب تک اس کا وضو نہیں ٹوٹتا، فرشتے اس کیلئے مغفرت اور رحمت کی دعاء کرتے رہتے ہیں اور جتنی دیر آدمی نماز کے انتظار میں رہتا ہے نماز کا ثواب پاتا رہتاہے۔ 

(بخاری)

شیطان کا غلبہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

جس گائوں یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں باجماعت نماز نہ ہوتی ہو تو ان پر شیطان مسلط ہوجاتا ہے پس جماعت کو لازم پکڑو ، بھیڑیا اکیلی بکری ہی کو کھاتا ہے (جو ریوڑ سے الگ ہو) ۔ 

(احمد، ابودائود، نسائی)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ آدمی کے کانوں میں رانگ پگھلا کر بھر دیا جائے تو اس سے بہتر ہے کہ اذان سنے اور مسجد کو نہ آئے۔     

(احیاء العلوم جلد اوّل)

یااللہ! ہمارے لئے باجماعت نماز اور مسجد میں حاضری آسان فرما ۔

آمین… یَا رَبَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ 




تبصرے

براہِ کرم! غلط یا حوصلہ شکن کمنٹ نہ کریں… آپ کا کمنٹ آپ کی ذات اور اخلاق کی پہچان ہے… اس لیے جلا بھنا یا ادب و آداب سے گرا ہوا کمنٹ آپ کے شایان شان ہرگز نہیں۔ شکریہ

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge