موت کیا ہے؟موت کی کہانی انسان کی زبانی

0

 



موت کیا ہے؟موت کی کہانی انسان کی زبانی

 فکر آخرت سرکار دو عالم ﷺ :

قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم سیأتی علی امتی زمان یحبون الخمس وینسون الخمس یحبون الدنیا وینسون الاخرة ویحبون الحیوة وینسون الموت ویحبون القصور وینسون القبور ویحبون المال وینسون الحساب ویحبون الخلق وینسون الخالق۔

ترجمہ: فرمایا۔ میری امت پر ایسا زمانہ آئے گا کہ پانچ چیزوں کو پسند کریں گے۔ اور پانچ چیزوں کو بھول جائیں گے۔

۱۔         دنیا کو پسند کریں گے۔ آخرت کو بھول جائیں گے۔

۲۔        زندگی کو پسند کریں گے۔ موت کو بھول جائیں گے۔

۳۔       محلات و مکان پسند کریں گے۔ قبر کو بھول جائیں گے۔

۴۔       مال و دنیا پسند کریں گے۔ حساب و  کتاب بھول جائیں گے۔

۵۔       مخلوق کو پسند کریں گے۔ خالق کو بھول جائیں گے۔

حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں :

ایک مرتبہ حضورﷺ مسجد میں تشریف فرما ہوئے۔ دیکھا کہ بعض لوگوں کے ہنسی کی وجہ سے دانت کھل رہے ہیں ۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لذتوں کو توڑنے والی موت کو کثرت سے یاد کرتے ۔ تو وہ ان چیزوں میں مشغول ہونے سے روک دیتی۔ جس سے ہنسی آئی۔

ہر شخص کی قبر روزانہ اعلان کرتی ہے ۔ کہ میں بالکل تنہائی کا گھر ہوں ۔میں سب سے علیحدہ رہنے کا گھر ہوں ۔ میں کیڑوں کا گھر ہوں ۔ جب نیک دفن ہوتا ہے تو قبر اس سے کہتی ہے کہ تیرا آنا مبارک ہو۔ تیرے آنے سے بڑی خوشی ہوئی ۔ جتنے لوگ میری پشت پر چلتے تھے۔ ان میں تو مجھے بہت پسند تھا۔ آج تو میرے پیٹ میں آیا ہے تو میں تجھے اپنا بہترین طرز عمل دکھاؤں گی۔ اس کے بعد اس کی قبر اتنی وسیع ہو جاتی ہے ۔ کہ جہاں تک مردہ کی نظر جائے وہاں تک کھل جاتی ہے ۔ ایک کھڑکی جنت میں سے کھل جاتی ہے ۔ جس سے وہاں کی خوشبوئیں اور ہوائیں وغیرہ آتی رہتی ہیں ۔ جب کوئی بدکار، ریاکار کافر دفن ہوتا ہے ۔ تو زمین اس سے کہتی ہے کہ تیرا آنا بڑا نا مبارک ہے۔ تیرے آنے سے جی بہت برا ہوا۔ جتنے لوگ میری پشت پر چلتے تھے۔ ان میں تو مجھے بہت برا لگتا تھا۔ آج میں تجھے اپنا بدترین طرز عمل دکھاؤں گی۔ یہ کہہ کر وہ اس کو ایسے بھینچتی ہے کہ اس کی ہڈیاں پسلیاں ایک دوسرے میں گھس جاتی ہیں ۔ حضور اقدسﷺ نے اپنی ہاتھ کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈال کر فرمایا۔ کہ اس طرح ایک جانب کی پسلیاں دوسری جانب میں گھس جاتی ہیں ۔ اور ستر اژدھے اس کو ڈسنا شروع کر دیتے ہیں ۔ وہ ایسے زہریلے ہوتے ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی زمین کے اوپر پھونک مارے تو قیامت تک زمین پر گھاس نہ اگے گی۔ (اعاذنا اللہ فیھا من سائر العذاب)  اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا ۔ قبر جنت کے باغوں میں ایک باغ ہے یا دوزخ کے گڑھوں میں ایک گڑھا ہے۔

حضرت ابن عمر فرماتے ہیں:

ایک شخص نے حضورﷺ سے دریافت کیا۔ کہ یا رسول اللہ! سب سے زیادہ محتاط اور سب سے زیادہ سمجھدار کون ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا۔ جو شخص موت کو کثرت سے یاد کرتا ہے۔موت کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ یہی لوگ دنیا کی شرافت اور آخرت کا اعزاز و اکرام حاصل کرنے والے ہیں ۔

قول صدیق اکبر:

کل امرء مصبح فی اھلہ والموت ادنی من شراک نعلہ (بخاری)

ترجمہ: " ہر فرد کو اپنے اہل میں صبح اچھی گزرنے کی دعاء دی جاتی ہے۔ حالانکہ موت جوتی کے تسمہ سے زیادہ قریب ہوتی ہے"۔

قول فاروق اعظم:

کفی بالموت واعظا یاعمر۔

ترجمہ: ''عمر! واعظ کے طور پر موت ہی کافی ہے''۔

قول ذوالنورین:

ان القبر اول منزل منازل الاخرة۔

ترجمہ: ''قبر آخرت کی پہلی منزل ہے''۔

قول علی المرتضیٰ:

موت سے بڑھ کر سچی اور امید سے بڑھ کر جھوٹی کوئی چیز نہیں ہے۔ موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔ جب نماز شروع فرماتے ۔ لرزہ بر اندام ہو جاتے۔فرماتے: ڈرتا ہوں ۔ قبول ہو گی یا نہیں ۔

قول ابو بکر:

الظلمات خمس والسرج لھا خمس حب الدنیا ظلمة والسراج لہ التقویٰ والذنب ظلمة والسراج لہ التوبة والقبر ظلمة والسراج لھا لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ والا خرۃ ظلمة و السراج لھا العمل الصالح والصراط ظلمة والسراج لہ الیقین۔

ترجمہ: تاریکیاں اور اندھیریاں پانچ قسم کی ہوتی ہیں اور ان ظلمتوں کو دور کرنے کے لئے چراغ بھی پانچ قسم کے ہوتے ہیں ۔دنیا کی محبت تاریکی ہے ۔ جس کا چراغ پرہیز گاری ہے (٢)۔ معصیت اور گناہ بھی ایک تاریکی ہے جس کا چراغ توبہ ورجوع الی اللہ ہے۔(٣)۔ گوشہ قبر بھی خانہ تیرہ و تار ہے جس کا چراغ کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے۔(٤)۔ غفلت و خود فراموشی سے آخرت میں بھی تاریکی سے دوچار ہونا پڑتا ہے جس کا چراغ عمل صالح ہے۔(٥)۔ اور پل صراط بھی ظلمت ہی ہے جس کا چراغ یقین و ایمان کامل ہے۔ والسراج لھا الیقین۔

قول علی مرتضیٰ:

ان من نعیم الدنیا یکفیک الاسلام نعمہ وان من اشغال الدنیا یکفیک الطاعہ شغلا وان من العبرة یکفیک الموت عبرة۔

ترجمہ: دنیا کی نعمتوں میں سے تجھے نعمت اسلام کافی ہے۔ دنیا کی مشغولیتوں میں سے تجھے مشغولی عبادت کافی ہے۔ دنیا کی عبرتوں میں سے تجھے عبرت موت کافی ہے۔

ارشاد حضرت علی:

حضرت علی جب قبرستان سے گزرتے یہ مقولہ دہراتے اور آنسو بہاتے یوں فرماتے:

  یا اھل القبور اموال کم قسمت

  اے قبر والوں تمہارا مال سب تقسیم ہو گیا۔

  ودیارکم سکنت۔

  تمہارے گھروں میں اور لوگ آباد ہو گئے۔

  ونساء کم زوجت۔

 تمہاری بیوی نے اورخاوند کرلیے

  واولاد کم حرمت۔

  تمہاری اولاد تمہاری شفقت سے محروم ہو گئی۔

عبرت انگیز اشعار

   الایا ساکن القصر المعلی

   ستد فن عن قریب فی التراب

   لہ ملک ینادی کل یوم

  لدو اللموت وابنوللخراب

خبردار اے محلات میں رہنے والا عنقریب مٹی میں دفن ہو گا۔

ہر روز فرشتہ اعلان کرتا ہے۔ آہ بچے مریں گے اور تعمیرات خراب وتباہ ہوں گی۔

اے غافل: تو ہنس رہا ہے ۔ تیرا کفن تیار ہوچکا ہے۔ تیری قبر اندھیرے میں ہے۔

ارشاد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی  :

فکم من کفن مفعول

وصاحبہ فی السوق مشغول

فکم من قبر محفور

وصاحبہ باالسرور مغرور

وکم من ضاحک

وھو عن قریب ھالک

وکم من منزل کمل بِنَاؤُہ

وصاحبہ قد اذن فناؤُہ

و کم من عبد یرجوا بشارةً

فیرولہ الخسارہ

وکم من عبد یرجو الثواب

فیرولہ العقاب

ترجمہ: بہت سے لوگوں کے کفن تیار ہو کر آ چکے ہیں ۔ مگر کفن پہننے والے ابھی تک بازاروں میں خرید و فروخت میں لگے ہوئے ہیں ۔ یعنی موت سے غافل ہیں ۔ بہت سے لوگوں کی قبریں کھود کر تیار ہوئیں ۔ مگر ان میں دفن ہونے والے غفلت سے خوشیاں کرتے پھرتے ہیں ۔ بہت سے لوگ اس وقت ہنستے خوشیاں کرتے پھرتے ہیں ۔ حالانکہ ہنسنے والے جلد ہلاک ہونے والے ہیں ۔ بہت سے لوگوں کے ابھی محل و مکان نئے بن کر تیار ہوئے تھے یکایک مکان کے مالک کی موت کا وقت آگیا۔ بہت سے لوگ خوشی کی خبروں کے منتظر ہوتے ہیں ۔ اچانک ان کے سامنے رنج و مصیبت کی خبریں آ جاتی ہیں ۔ بہت سے لوگ برے عمل کرتے ہیں اور امید ثواب کی رکھتے ہیں ۔ مگر کیا ہوا۔ ان کا کیا ان کے سامنے آتا ہے۔

ماخوذ از کتاب: آخرت کی کہانی انسان کی زبانی، مولانا عبد الشکوردینپوری

 

 

No comments:

Post a Comment

براہِ کرم! غلط یا حوصلہ شکن کمنٹ نہ کریں… آپ کا کمنٹ آپ کی ذات اور اخلاق کی پہچان ہے… اس لیے جلا بھنا یا ادب و آداب سے گرا ہوا کمنٹ آپ کے شایان شان ہرگز نہیں۔ شکریہ

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge