احادیث کیسے محفوظ رکھی گئیں؟

0

 


احادیث کیسے محفوظ رکھی گئیں؟

شروع میں یہ ہوتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاداتِ عالیہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال واحوال حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم یاد کرلیتے تھے اور آپس میں ان کا مذاکرہ بھی کرتے تھے نیز پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہدایات کو عملي زندگی میں بھی داخل کرتے تھے، جس سے وہ بات خود بخود یاد ہو جاتی تھی کیونکہ ’’عمل‘‘ بذات خود یاد دہانی کا ذریعہ ہے، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح قرآنِ کریم کی کتابت کا اہتمام فرمایا، اس انداز میں احادیثِ شریفہ کو لکھنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ بعض مرتبہ منع بھی فرما دیا۔

منع فرمانے كے اسباب كيا تھے؟

 حضرت مولانا عبد اللہ معروفی استاذ تخصص فی الحدیث دار العلوم دیوبند اس  کے اسباب شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

الف: اپنے فطری قوتِ حافظہ کی حفاظت مقصود تھی کیونکہ قید تحریرمیں آجانے کے بعد یاد داشت کے بجائے نوشتہ (لکھے ہوئے)پر اعتماد ہوجاتا۔

ب: قرآنِ کریم کے لفظ اور معنیٰ دونوں کی حفاظت مقدم اور لابدی (ضروری)تھی، اس لئے لکھنے کا اہتمام کیا گیا، جب کہ حدیث کی روایت بالمعنی بھی جائز تھی، اس لئے حدیث کے نہ لکھے جانے میں کوئی نقصان نہیں تھا۔

ج: عام مسلمانوں کے اعتبار سے یہ اندیشہ تھا کہ قرآن اورغیر قرآن یعنی حدیث ایک ہی چمڑے یا ہڈی پر لکھنے کی وجہ سے خلط ملط ہوسکتے ہیں، اس لئے احتیاطی طور پررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنِ کریم کے علاوہ احادیث نبویہ کو لکھنے سے منع فرمایا، چناںچہ حضرت ابوسعید خدری اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث جس میں کتابت حدیث سے ممانعت فرمائی گئی ہے، اسی مصلحت پر مبنی ہے۔

 (حدیث اور فہم حدیث ۸۱)

اس سے معلوم ہو گیا کہ احادیث شریفہ کی حفاظت کا مدار شروع میں کتابت پر نہ تھا، بلکہ حفظ و عمل پر تھا، اور بعض اہم مصالح کی بنا پر کتابت سے روک دیا گیا تھا اور بلا شبہ کتابت کے مقابلے میں حفظ و عمل کا ذریعہ زیادہ قابلِ اعتماد ہے۔کتابتِ حدیث کی ممانعت قطعی نہ تھی اورکتابت حدیث کی ممانعت چونکہ ان مصالح پر مبنی تھی جو اوپر ذکر کئے گئے اس لئے جہاں ایسا کوئی خطرہ نہ تھا، وہاں خود پیغمبر علیہ السلام سے احادیث لکھنے کی اجازت دینا بلکہ خود لکھوانا ثابت ہے،

حضرت مولانا عبد اللہ صاحب معروفی لکھتے ہیں:

’’دوسری طرف خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض ان صحابہ کوحدیثیں لکھنے کی اجازت دی ہے جن کا تیقظ اورقرآن اور غیر قرآن کے درمیان تمیز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اعتماد تھا، بلکہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ کتابت حدیث کی اجازت کی حدیثیں ناسخ ہیں، احادیث ممانعت کے لئے کیونکہ بعد میں وہ علت(وجہ) ہی ختم ہوگئی جو ممانعت کی تھی،

ملاحظہ

 چند احادیث مبارکہ پڑھیں جن سے کتابت حدیث کی اجازت معلوم ہوتی ہے:

(1) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا، اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے لکھ لیا کرتا تھا، قریش کے لوگوں نے مجھے منع کیا کہ تم ہر بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لکھ لیا کرتے ہو، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان ہیں، ان پر خوشی اور غصہ دونوں حالتیں طاری ہوتی ہیں، چنانچہ میں لکھنے سے رک گیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر یہ بات میں نے عرض کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت مبارک سے اپنے دہن مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:اُکْتُبْ! فَوَ الَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ مَا خَرَجَ مِنْہَا إِلاَّ حَقٌّ۔ (سنن أبي داؤد ۵۱۴، سنن دارمی ۱؍۴۲۹، تقیید العلم ۷۴)تم لکھتے رہو، کیونکہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، میرے منہ سے حق ہی صادر ہوتا ہے۔

(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں مجھ سے زیادہ حدیثوں کا جامع کوئی نہیں ہے، سوائے عبد اللہ بن عمروکے، کیونکہ وہ لکھتے تھے اورمیں لکھتا نہیں تھا۔

 (بخاری، کتاب العلم باب کتابۃ العلم ۱؍۲۲)

(3)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے کہ ایک انصاری شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی، تو آپ نے فرمایا: اِسْتَعِنْ بَیَمِیْنِکَ۔ (ترمذي، أبواب العلم ۲؍۹۵)اپنے ہاتھ سے مدد لو (یعنی اسے لکھ لو)

(4)حضرت انس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ:قَیَّدُوْا الْعِلْمَ بِالْکِتَابِ۔ یعنی حدیث کو کتابت وتحریر کے ذریعہ مقید کرلیاکرو۔

(جامع بیاان العلم لابنعبد البر ۱؍۸۷ دار الفکر، تقیید العلم ۷۰)

(5)فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، تو ایک یمنی صحابی جن کا نام ابوشاہ تھا، انہوں نے درخواست کی کہ ان کے واسطے یہ خطبہ لکھ دیا جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اُکْتُبُوْا لِأَبِيْشَاہْ‘‘۔ (ابوشاہ کے لئے لکھ دو)

(بخاری، کتاب العلم،باب کتابۃ العلم ۱؍۲۲)

اس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد مواقع پرحدیثیں لکھوانے کاثبوت ہے۔‘‘

(حدیث اور فہم حدیث ۸۳-۸۵)

الغرض ضرورت کے موقع پر احادیث شریفہ کی کتابت کا ثبوت بھی دور نبوت سے ملتا ہے، لیکن درج بالا وجوہات کی وجہ سے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔

دور صحابہؓ و تابعین

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد دور صحابہؓ میں دونوں طرح کے رجحان پائے جاتے رہے، بعض حضرات کتابتِ حدیث کو اس وجہ سے نا پسند فرماتے تھے کہ کہیں کتاب اللہ و سنتِ رسول اللہ میں اختلاط نہ ہو جائے کیونکہ اس وقت تک قرآنِ کریم کو باقاعدہ مصاحف میں جمع کر کے رکھنے کا دستور نہ تھا۔اس کے برخلاف اس دور میں جہاں ضرورت پیش آئی تو احادیثِ شریفہ کی تحریروں کا بھی اہتمام کیا گیا اور ساتھ میں انہیں کتاب اللہ سے بالکل ممتاز رکھا گیااس دور کی جمع کردہ تحریرات میں سیدنا حضرت ابو ہریرہؓ کا ’’صحیفۂ صحیحہ‘‘ اور سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ کا ’’صحیفۂ صادقہ‘‘ معروف و مشہور ہے۔تقریباً یہی صورت حال تابعین کے شروع دور میں رہی کہ عمومی طور پر احادیث لکھنے کا اہتمام نہ تھا لیکن خصوصی مجموعے اس دور میں بھی پائے گئے ہیں۔

کتابت حدیث کا آغاز

لیکن چونکہ زمانہ دورِ نبوت سے دور ہوتا جارہا تھا اور مشکوٰۃ نبوت سے براہ راست استفادہ کرنے والے صحابہ رفتہ رفتہ دنیا سے رخصت ہو رہے تھے اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس کی جانے لگی کہ صحابہ اور ان کے معتبر شاگردوں سے جو روایات موجود ہیں ان کو مرتب اور مدون کیا جائے تاکہ اس عظیم اسلامی ورثہ کی حفاظت زیادہ بہتر اور مستند طریقے پر ہو سکے، چنانچہ اس بارے میں سب سے پہلے خلیفۂ راشد سیدنا عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد مدینہ منورہ کے گورنر ابو بکر بن حزم کوتحریر لکھی کہ’’ تمہیں جو احادیث دستیاب ہوں انہیں تحریر میں لے آؤ کیونکہ مجھے علماء کی رحلت کی وجہ سے علم کے فنا ہو جانے کا اندیشہ ہے‘‘۔

(بخاری شریف کتاب العلم ۱؍۲۰)

خاص طور پر مدینہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات (بتوسط حضرت عمرہ بنت عبد الرحمن اور حضرت قاسم بن محمد)نقل کرکے بھیجنے کا حکم صادر کیا جس کی ابو بکر بن حزم نے تعمیل کی۔اسی طرح کے فرامین حضرت عمر بن عبد العزیز نے دیگر بلاد اسلامیہ کے حکام کو بھیجے جس کے بعد مقامی طور پر بھی جمع و تدوین کا کام تیزی سے شروع ہو گیا۔

حدیث کی سب سے پہلی کتاب

چنانچہ مدینہ منورہ میں امام محمد بن شہاب زہری (م: ۱۲۴)، امام محمد بن اسحاق (م: ۱۵۱) امام مالک بن انس (م: ۱۷۹) جنہوں نے مؤطا تصنیف فرمائی اور کوفہ میں امام اعظم امام ابو حنیفہؒ (م: ۱۵۰) جنہوں نے کتاب الآثار میں احادیث جمع فرمائیں اور غالباً یہ کتابی اعتبار سے حدیثوں کو جمع کرنے کی سب سے پہلی کوشش تھی، اسی طرح کوفہ ہی میں امام سفیان بن سعید ثوریؒ (م: ۱۶۱ اور امام وکیع بن الجراح (م: ۱۹۷) اور بصرہ میں امام سعید بن ابی عروبہ (م:۱۵۶) ربیع بن الصبیح (م: ۱۶۰) وغیرہ، اسی طرح کی کوششیں مکہ معظمہ، یمن، شام اور مصر وغیرہ میں بھی کی گئیں، اس زمانے میں جو کتابیں لکھی گئیں ان میں احادیث مرفوعہ کے ساتھ صحابہؓ کرام اور تابعین کے فتاویٰ بھی ایک باب کے تحت جمع کردئیے جاتے تھے۔

مسانید

اس کے بعددوسری صدی کے اواخرمیں بڑی تعداد میں مسانید لکھی گئیں جن میں صحابۂ کرامؓ سے منقول مرفوع احادیث کو صحابہ کے ناموں کو ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا جیسے: مسند احمد بن حنبل، مسند ابو داؤد الطیالسی وغیرہ۔

صحاح ستہ کب لکھی گئیں؟

تیسری صدی میں تدوینِ حدیث کا کام تکمیل کو پہنچااور احادیث شریفہ کو اچھی طرح سے منقح کرکے ہر باب سے متعلق صحیح حدیثوں کو یکجا کرنے کی کامیاب کوششیں کی گئیں جن میں حضرت امام بخاریؒ (م:۲۵۶)، حضرت امام مسلمؒ (م:۲۶۱)، حضرت امام ابو داؤد (م:۲۷۵)، حضرت امام ترمذیؒ (م:۲۷۹)، حضرت امام نسائی (م:۳۰۳)، حضرت امام ابن ماجہ (م:۲۷۳)یہ خدمات ممتاز اور انتہائی قابل قدر ہیں، ان حضرات کی تصانیف کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔

بعد میں پھر مزیدتنقیح و تحقیق اور تصنیف و تالیف اور جمع و تدوین کا کام ہوتا رہااور محدثین کی کوششوں سے احادیث شریفہ کا بے مثال ذخیرہ جمع ہو گیا، الحمد للہ علی ذٰلک۔

 (مزید تفصیل کے لئے دیکھئے : حدیث و فہم حدیث: ۸۸ تا ۱۱۲)

No comments:

Post a Comment

براہِ کرم! غلط یا حوصلہ شکن کمنٹ نہ کریں… آپ کا کمنٹ آپ کی ذات اور اخلاق کی پہچان ہے… اس لیے جلا بھنا یا ادب و آداب سے گرا ہوا کمنٹ آپ کے شایان شان ہرگز نہیں۔ شکریہ

Powered by Blogger.

Advertise Here

© 2020 تمام جملہ حقوق بحق | Tahseenonline | محفوظ ہیں

Theme byNoble Knowledge